قناعت

اپنی نئی چیزیں بھی تمہیں دے دیتی ہے ۔ دوسرے بچوں کا خرچ کم کرکے میں نے تمہیں تمہاری پسند کی خریداری کرادی تھی اور اب تواماں کا پارہ چڑھنے لگا ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ میں فرح کو بہلا پھسلا کر اس سے ہر چیز جھپٹ لیتی تھی اور وہ بھی خوشی خوشی مجھے اپنی ہر چیز دے دیا کرتی تھی مگر اس کے کپڑے تو مجھے نہیں آسکتے تھے کیونکہ وہ کافی چھوٹی تھی ۔ اور یہ تم نے نہ جانے والی کیا بات کی ۔ شگفتہ تمہاری چچازاد بہن ہے گھر کی شادی ہے ۔ میں کوئی نخرہ برداشت نہیں کروں گی ۔ اماں نے دو ٹوک جواب دیا ۔ مجھے نہیں پتہ مجھے ہر صورت میں نئے کپڑے چاہئیں میں نے پیر پٹختے ہوئے کہا ۔ تمہارے ابا کی فیاکٹریاں نہیں چل رہیں ۔ ایک ہی شخص کو پورے گھر کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ تمہیں یہی کپڑے پہننے ہوں گے ۔ ناشکری لڑکی ۔ سب لڑکیاں ہر موقع پر نئے کپڑے بناتی ہیں ۔ اقراء اور اقصی کو دیکھا ان کی ہر فرمائش پوری ہوتی ہے ۔ آپ ہیں کہ قناعت کا درس دئے جاتی ہیں میں نے جلتے ہوئے کہا ۔

لڑکی تم ہر معاملے میں بحث کرنے لگی ہو ۔ یہ نہیں کھانا وہ کھانا ہے ۔ یہ نہیں پہننا وہ پہننا ہے ۔ یہ چاہئے وہ چاہئے ۔ کتنی بار سمجھایا ہے اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو اپنے سے اوپر والوں کو دیکھنے سے اللہ تعالی کی دی گئی نعمتوں کی ناقدری ہوتی ہے ۔ ایسا انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتا وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا مگر تم پر ان نصیحتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ اب اب میں کچھ نہیں سنوں گی ۔ بحث فضول ہے ۔ اماں یکدم باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں ۔ اور وہی ہوا مجھے اماں کی گھورتی نگاہوں اور ڈھیروں نصیحتوں کے ساتھ شادی میں شرکت کرنا پڑی لیکن مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ ہر چیز اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہو رہی تھی ۔ میں کسی سے بھی گھل مل نہ سکی ۔ سب ہی اپنی دنیا میں مگن تھے ۔ اماں نے مجھ سے بے رخی برتی ہوئی تھی ۔ میں پیچھے بیٹھی محفل کی رونقیں دیکھ رہی تھی ۔ پھر میری بہن فرح اپنی ہم جولیوں کے ساتھ اگلی کرسی پر آکر بیٹھ گئی ۔ زرق برق کپڑے پہنے سب ہی ننھی پریاں لگ رہی تھیں ۔

فرح سے کہا ’’ دیکھیں فرح آپی میں نے کتنی پیاری فراک پہنی ہے ۔ آپ نے اتنی اچھی فراک کیوں نہیں پہنی ؟ جو فراک تمہیں اچھی لگی وہ تم نے پہن لی جو کپڑے مجھے اچھے لگے وہ میں نے پہن لئے ۔ فرح نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا ۔ فرح کا جواب سن کر تو میں حیرت زدہ رہ گئی ۔ اس کا لہجہ اعتماد سے بھرپور تھا ۔ اس کے معصوم سے چہرے پر کوئی شرمندگی نہ تھی ۔ آٹھ نو سال کی بچی نے مجھے قناعت کا وہ سبق دیا جو مجھے کتابوں اور اماں کی ڈھیروں نصیحتوں سے حاصل نہ ہوا تھا ۔ بعض اوقات ہم اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات روتے کڑھتے گذار دیتے ہیں اور ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں جو ہمیں میسر ہوتی ہیں ۔ قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرکے ہم زندگی کے ہر لمحے سے خوشیاں کشید کرسکتے ہیں ۔ وہ خوشیاں جو ہمیں انعام کے طور پر ملی ہوتی ہیں ۔ بس اسی لمحے میری سوچ کو ایک نیا رخ ملا اور میںنے ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا ۔