قلم کی حرمت اور فکر و خیال کی عکاسی

کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرمان رواؤں پر بٹھاتا ہے قلم
صفحۂ کاغذ پر جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
(شورش کاشمیری)
قلم کے بارے میں محترم محمد سلیم ندوی بلگامی اپنے ایک تازہ ترین مضمون سہ روزۃ دعوت نئی دہلی مورخہ 22 مئی 2015 میں لکھتے ہیں کہ ’’میرا نام قلم ہے ۔ مجھے ہر انسان اپنی بولی اور زبان میں جدا جدا الفاظ سے یاد کرتا ہے ۔ میرے خالق نے مجھے اپنی آخری کتاب میں لفظ ’’قلم‘‘ سے یاد فرمایا ہے ۔ (القلم ۱ ۔ العلق ۴) ۔ میری پیدائش ارشاد رسولؐ کے مطابق اس وقت ہوئی جب کہ ابھی میرے رب نے کائنات کے کسی شئے کو وجود نہیں بخشا تھا ۔ وجود و ظہور میں سب سے پہلے ’’میں‘‘ ہوں پھر مجھے حکم ربی ہوا کہ ’’لکھ‘‘ تو میں نے منشائے الہی کے مطابق ہر وہ چیز لکھ دی جو ازل سے ابد تک ہونے والی ہے (ترمذی 3319) ۔ میرا کام لکھنا ہے آواز کی صورت گری کرنا ہے ، فکر و خیال کی مجسمہ سازی ہے الفاظ کو لباس کا جامہ پہنانا ہے ۔ میرا وجود بے جان ہے میں سماعت و بصارت سے خالی ہوں ۔ نطق و بیان میری تحریر ہے ۔ میں اپنی ذاتی فکر و خیال اور ارادہ سے عاری و خالی ہوں ۔ میں خود نہیں چلتا ہوں ، حرکت دینے والا مجھے اپنے ارادہ کے مطابق حرکت دیتا ہے ۔ میں اس بات سے بے خبر ہوں کہ یہ میری کمزوری ہے یا خوبی کہ جو جس طرح اور جس نیت سے چلاتا ہے میں چل پڑتا ہوں ۔ نیک لوگ مجھے بھلے اور اچھے کام کیلئے اور بُرے لوگ اپنی برائی کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی میں ایمان کی باتیں لکھتا ہوں تو کبھی کفر کی باتیں ۔ مجھ سے کوئی محبت و مودت کی تحریریں لکھتا ہے تو کوئی نفرت و عداوت کی لکیریں کھینچتا ہے  ۔ کوئی نوک قلم سے دو جدا دلوں کو محبت کے ٹانکوں سے جوڑتا ہے تو کوئی نوک قلم سے زہریلے سانپ کی طرح ڈس کر دو دلوں کو مسموم کرتا ہے ۔ کبھی میں متقی و خدا ترس کے ہاتھ میں ہوتا ہوں تو کبھی فاسق و فاجر کے ہاتھ میں ۔ متقی و خداترس لکھنے سے قبل سوچتا ہے ۔ لکھتے ہوئے خدائی استحضار رکھتا ہے لکھ کر لکھی ہوئی عبارت کا بے لاگ جائزہ اور محاسبہ کرتا ہے ۔
میرا کام زبان کی مانند ہے ، فرق یہ ہے کہ زبان کے الفاظ سنے جاتے ہیں جب کہ میرے الفاظ دیکھے بھی جاتے ہیں۔ زبان سے نکلے الفاظ فضاؤں میں تحلیل ہوجاتے ہیں جب کہ میرے الفاظ منقش پتھر کی طرح محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ بولی کا زمانہ مختصر اور میرا زمانہ تا دیر بولی کو وہ مقام حاصل نہیں جو لکھائی کو حاصل ہے ۔ جو اصول و آداب زبان کی بولی کے ہیں وہی احکام قلم کی لکھائی کے ہیں جس طرح زبان سے بولنا اور پڑھنا رب کے نام سے ہو (علق ۱) اس طرح قلم سے لکھنا بھی رب کے نام سے ہو زبان کے بول میں خیر ضروری ہے ورنہ خاموشی بہتر (بخاری 6476) ۔ یہی اصول حرکت قلم کے وقت ہے جس طرح زبان سے کہی بات کی تحقیق ضروری ہے (حجرات ۶) اسی طرح تحریر قلم کی تحقیق ضروری ہے ۔ زبان کا ایک بول رضائے خداوندی کا سبب ہوسکتا ہے (بخاری 6113) ۔ قلم کا ایک جملہ بھی یہی شان رکھتا ہے جس طرح زبان کا ہر بول کاتبان اعمال فرشتوں کی گرفت میں ہے (ق 18) یہی نگرانی کا نظم ، تحریر کلام پر بھی قائم ہے ۔ زبان کی نرمی ، کلام میں خوبصورتی اور اس کی سختی بدصورتی کو جنم دیتی ہے (کنز العمال 3776) یہی کیفیت بیان تحریر کی ہے زبان کیلئے یاد الہی کا حکم ہے ۔

میرے رب سبحانہ تعالی نے اس وقت میری اہمیت و ضرورت اور مقام کا راز افشا کردیا تھا جبکہ اس نے اپنی آخری کتاب کا آغاز سورہ اقراء کی پانچ آیات سے فرمایا تھا ، جس نے بتایا کہ آخری دور قلم کا ، علم و نظریات کا اور فکر و فلسفہ کا ہوگا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس امت نے تھوڑی سی مدت میں کتنے بڑے بڑے کتب خانے تیار کردیئے ، ان گنت نئے فنون میں ہزارں کتابوں کا ذخیرہ تیار کردیا اور انسانی دنیا کو مادی و روحانی معالجاتی و ترقیاتی اور اپنے فکر و قلم سے ہزاروں انقلاب کی بنیاد ڈالی ۔ صالح مفکرین نے مجھ سے اصلاح و خیر کا کام لیا ہے ۔ اور فاسد علمبرداروں ے سماج میں ترویج فتنہ و فساد کا کام کیا ہے ۔ دین و دنیا ، اچھا برا ، خیر و شر ، صلاح ، فساد وصل و فصل اور محبت پر جنہوں نے مجھ سے دین و ایمان کے حقائق لکھے ، قرآن و سنت کی تشریحات رقم کی ۔ معلوماتی و بہترین مضامین لکھے ۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی ایک درس دیا اور سیرت وسوانح کے انمٹ نقوش درج کئے ۔ ابن عقیلؒ مختلف علوم و فنون میں تقریباً بیس کتابیں لکھیں جن میں دنیا کی سب سے بڑی تصنیف ’’الفنون‘‘ لکھی ابن رجبؒ کا بیان ہے کہ یہ کتاب آٹھ سو جلدوں میں تھی ۔ امام جریر طبری اپنے وقت کے امام اور زبردست مجتہد ہیں جن کی کثرت تالیف اور حسن تصنیف نے انھیں اسلامی تاریخ کا سب سے عظیم محقق بنادیا ۔ انہوں نے اپنی تصانیف کی شکل میں تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد اوراق بطور یادگار چھوڑے ہیں ۔
آج راقم التحریر پوری امت مسلمہ سے مودبانہ و مخلصانہ گویا ہے کہ تم ہی وہ قوم ہو جن میں نعمان بن ثابتؒ جیسا صاحب فہم و نظر تھا ۔ غزالیؒ جیسا صاحب علم تھا ، رازی جیسا نقطہ داں تھا ۔ ابن قیمؒ جیسا صاحب قلم تھا ، عطار بن محمد الکاتب جیسا کیمیاداں تھا ۔ ابوحنیفہ الدنیواری جیسا ماہر نباتیات تھا ۔ ابومعمر بن مثنی جیسا ماہر حیوانات تھا جابر بن حیان جیسا علم الکیمیا کا باوا آدم تھا ۔ ابو یوسف یعقوت کندی جیسا علم الطبیعات اور فلسفہ کا امام تھا محمد بن موسی خوارزمی جیسا حساب الجبرا اور جیومٹری تھا ۔ ابوبکر بن زکریا الرازی جیسا علم الطب medicine میں ماہر تھا ۔ جنہوںنے اس راز کو پہچان لیا تھا کہ آخری زمانہ قلم کا زمانہ ہے جس سے قومیں عروج و  زوال پذیر ہوں گی ۔

تھے تو آباء وہ تمہارے مگر تم کیا ہو
آج کتنے بڑے بڑے اور قسم قسم کے فتنے ابھر رہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو جلا کر خاکستر کردینا چاہتے ہیں ۔ اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے اس کو فرسودہ و بوسیدہ کردینے پر تلے ہیں جو اسلام سوز ، دین سوز ، ایمان سوز ، اخلاق سوز بلکہ انسانیت سوز فتنے ابھر رہے ہیں ۔ بقول مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ کہ مادیت ، الحاد ، قوم پرستی ، نبوت محمدی سے آنکھیں ملانے کیلئے تیار ہے ۔ آج کاذبین نئے نئے روپ میں آرہے ہیں اور نبوت محمدیؐ کو چیلنج کررہے ہیں ۔ آج سرکٹانے اور کاٹنے کی ضرورت نہیں ۔ آج باطل سے آنکھیں ملانے کی ضرورت ہے ۔ آج نبوت محمدیؐ پر تلواروں کا حملہ نہیں دلیلوں کا حملہ ہے ۔ مادیت کا حملہ ہے قوم پرستی کا حملہ ہے ۔ قلم اور تلوار ان دونوں کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے ۔ فرق یہ ہے کہ تلوار کی ضرورت وقتی عارضی اور قلم کی ضرورت دائمی ہے اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے بقول شاعر

تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو
ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہے قلم سے
تلوار کا خیر و شر وقتی اور قلم کا تادیر ہے ۔ تلوار کا زخم خود بخود مٹ جاتا ہے قلم کا زخم مٹائے نہیں مٹتا ہے ۔ آج اسلام پر اٹھنے والے باطل اشکالات اور قانون الہی پر لگائے گئے ظالمانہ اعتراضات کا مثبت ، مدلل  ،ٹھوس اور حکیمانہ جواب کی ضرورت ہے ۔ ہر دور اور ززانہ کیلئے تعلیمات اسلامی کا قابل عمل ہونا اور ساری مخلوق کیلئے اسکا باعث راحت و خیر ہونے کی مدبرانہ و فقیہانہ استدلال و تشریح کی ضرورت ہے ۔
آج باطل کی تحریف کردہ اسلامی حقائق کو صداقت و عداتل کے معیاری ترازو سے تول کر حقیقت کو واشگاف اور واضح کرنے کا وقت ہے ۔ جس کیلئے شستہ و شگفتہ قلم  ،دلکش پیرایہ اور بہتر اسلوب کی ضرورت ہے جس آواز کو نہ صرف زمانہ سنے بلکہ قبول کرے اور اس صدا کو لبیک کہہ کر سینہ سے لگائے ۔ دور حاضر عدالت و صداقت ، حیا و پاکدامنی اور خیر خواہی و درد انسانیت میں مثالی انقلاب کا منتظر ہے ۔ اور یہ انقلاب قلم سے لایا جاسکتا ہے فرق صرف استعمال کا ہے ۔
دعاء کے ساتھ تدبیریں عمل کے ساتھ تکبیریں
خدا کی راہ میں ان ساز و ساماں کی ضرورت ہے
(بشکریہ سہ روزہ دعوت، نئی دہلی)
مرسلہ : قاری ایم ایس خان