قطر مذاکرات کا التوا

کل آنکھیں پھیر لیں محفل میں آپ نے ہم سے
کیا یہ صلہ ہے کہو اپنی آشنائی کا
قطر مذاکرات کا التوا
مسلم دنیا میں اتحاد وقت کا تقاضہ ہے ۔ موجودہ حالات میں عالمی سطح پر مسلم دنیا کو کمزور کرنے کی طرح طرح کی کوششیں جاری ہیں ، ایسے میں عرب دنیا کے ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی تشویشناک بنتی جارہی ہے ۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدہ تعلقات کو جتنا جلد ہوسکے ختم کیا جانا چاہئے ۔ اس خصوص میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ثالثی کا رول ادا کرنے کی پیشکش کی ہے ۔ عرب ممالک کو باہمی اختلافات دور کرنے کے لیے کسی دوسری طاقت کی مداخلت کا انتظار کرنا پڑرہا ہے تو یہ ایک افسوسناک تبدیلی ہے ۔ سعودی عرب نے قطر پر جس طرح کے الزامات عائد کئے ہیں ان پر توجہ دی جائے تو 3 ماہ سے جاری خلیجی بحران کو حل کرنے کی کوششیں کی جاسکتی ہے لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ بیرونی ذرائع سے امن مذاکرات کی کوشش اور ثالثی کی پیشکش کے درمیان سعودی عرب نے قطر کے ساتھ کسی بھی بات چیت کو معطل کرتے ہوئے قطر پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام عائد کیا ۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور قطری امیر شیخ تمیم بن حمدالثانی کے درمیان ہوئی ٹیلی فون بات چیت نے ہی سعودی عرب کو چراغ پا کردیا ہے ۔ اس بات چیت کے اصل لب و لباب سے ہٹ کر خبروں کی ترسیل نے سعودی عرب کو ناراض کردیا ۔ جس کے بعد ہی سعودی حکام نے قطر کی خبر رساں ایجنسیوں کی اطلاعات کو غیر درست قرار دیا ۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور قطری امیر شیخ تمیم حمد الثانی کے درمیان بات چیت کے بارے میں یہ ادعا کیا گیا کہ امیر قطر نے درخواست کی تھی اور مذاکرات کی میز پر آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ عرب ممالک کے حق میں تمام کے مفادات کو یقینی بنانے کی غرض سے ہی انسداد دہشت گردی گروپ تشکیل دینے کے لیے چار ممالک کے مطالبہ پر غور کرنے سے بھی اتفاق کیا گیا لیکن اچانک جو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اس سے دونوں جانب کی کشیدگی برقرار رہی ۔ قطر پر دباؤ برقرار رکھنے کے حصہ کے طور پر اگر سعودی عرب نے مذاکرات کو معطل کردیا ہے تو عرب ممالک کے بلاک کی جانب سے قطر کے سامنے رکھے گئے مطالبات کی یکسوئی کا پیمانہ کیا ہونا چاہئے ، یہ واضح کردیا جائے ۔ سعودی عرب ۔ قطر مذاکرات کے معطل ہوجانے سے اس خطہ میں پیدا شدہ بحران دور کرنے میں امریکی ثالثی بھی بے فیض ہوسکتی ہے ۔ وزیر خارجہ سعودی عرب عادل الجبیر نے قطر کی جانب سے مثبت ردعمل تک کوئی قدم نہ اٹھانے کی ضد کا اظہار کیا ہے تو اس طرح خطہ میں ضد کی سیاست سے رونما ہونے والی صورتحال کسی بھی ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگی ۔ قطر نے عرب ممالک کے بلاک کی جانب سے کئے گئے مطالبات کے بارے میں اپنے موقف کا واضح طور پر اظہار نہیں کیا ہے ۔ دہشت گرد گروپس کی مبینہ حمایت ختم کرنے کے بشمول 13 ایسے مطالبات کیے گئے ہیں جن کو دوحہ پورا کرسکے گا ، یہ وقت ہی بتائے گا ۔ عرب خطہ میں ترقی و اتحاد کو متزلزل کرنے والی کشیدگی ٹھیک نہیں ہے ۔ اگر قطر نے عرب بلاک کی درخواست پر مثبت جواب دیا تو پھر یہاں نئے باب کا آغاز ہوسکتا ہے لیکن میڈیا کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کی وجہ سے مذاکرات کے عمل کو روک دیا گیا ہے تو اس کو کوئی بنیادی وجہ نہیں کہا جاسکتا ۔ دو برادر خلیجی عرب ممالک میں صلح صفائی اور بحران کی یکسوئی کے لیے پیدا شدہ امیدوں پر فوری پانی پھیر دیا جانا مناسب نہیں تھا ۔ بات چیت میں پہل کس نے کی اور قطر کے ذرائع ابلاغ نے کیا لکھا اس پر زور دیا جانا اہم نہیں ہے بلکہ سعودی عرب اور قطر کو بنیادی باتوں پر پائے جانے والے اختلاف رائے کو دور کرنے کی گنجائش پیدا ہورہی ہے تو اس پر توجہ دینی چاہئے ۔ جون میں قطر سے اپنے تعلقات منقطع کرلینے والے ممالک سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، مصر اور بحرین کو پھر ایک بار یہ غور کرنے کی ضرورت ہے جب قطر نے سعودی عرب کے 13 نکاتی منشور مطالبات کو قبول کرنے سے اتفاق کیا ہے تو اس مسئلہ کو دیگر غیر ضروری باتوں کا شکار بناکر طول دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ خلیجی بحران کو جتنا جلد حل کرلیا جائے یہ ہر دو کے لیے بہتر ہے ۔ قطر کو بھی کئی معاملوں میں اپنا موقف مضبوط اور مستحکم رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ علاقائی استحکام سب کے لیے ضروری ہے ۔ عالم عرب کو غیر مستحکم کرنے والی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچنا ہی سب سے بڑی عقل مندی کہلائے گی ۔