قرآں کی شرح آپ کا خلق عظیم ہے

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
ربیع الاول کا مبارک مہینہ اس خاکدان گیتی پر رحمتوں کی سوغات لیکر آیا ،روحانی دنیا میں جو خزاں چھا گئی تھی اس کو پھر بہار آفریں کرگیا،معاشرہ کی ساری خزاں رسیدگی سیدنا محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد سے ختم ہوگئی اور پھر سے ساری دنیا میں رحمتوں کے انوار چھا گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل وہ کونسی برائی تھی جو سماج ومعاشرہ میں موجود نہیں تھی ،ہر وہ برائی جس کاتصور نہیں کیا جاسکتا وہ اس سماج کا ناسور بنی ہوئی تھی ،جبین انسانیت کی عظمت وشرافت تو اسی میںتھی کہ وہ صرف الہ واحد کے آگے جھکے لیکن اللہ کی مخلوقات کے آگے جبین نیاز خم کرکے اس کی عظمت کو داغ دار کیا جارہا تھا ،

شراب جو ام الخبائث ہے اس کا اتنی کثرت سے استعمال تھا کہ اس کی وجہ سے اور کئی خرابیاں معاشرہ میں پنپ رہی تھیںلڑکیوں کو زندہ درگور کردینا توایک معمولی سی بات تھی وہ اتنے سخت دل تھے کہ پتھر بھی شرماجائیں یتیموں اور بیوائو ںکے مال کو تو مال غنیمت سمجھ لیا گیا تھا ۔اپنی سوتیلی مائوںسے نکاح کرلینے کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا ،معمولی معمولی بات پر لڑائی جھگڑا بلکہ قتل وخون تک ایک آسان بات تھی ،اور یہ دشمنیاں ان کے درمیان نسلا بعد نسل جاری رہا کرتی تھیں ،لونڈی وغلام اور بیوائیں اس سماج کا ایک بڑا مظلوم طبقہ تھا ۔ الغرض غیر انسانی سلوک وبرتائو کے ہر طور طریق اس سماج کی پہچان تھے ۔ نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے اس سما ج کی ہر ہر برائی کا خاتمہ ہوا ۔

اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل اپنی چالیس سالہ پاکیزہ زندگی سے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کرلیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار وگفتار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات ایک کھلی کتاب تھے جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے سارے ادوار بچپن ،جوانی اور سارے اوقات ولمحات ان کے سامنے تھے دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ کرداری ونیک سیرت کے معترف تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کووہ صادق وامین کہہ کر بلاتے تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی دعوت دی اور انسانیت کو فلاح کا راستہ بتایا ،ارشاد فرمایا ۔قولوا لا الہ اللہ تفلحوا۔ ایمان لائو اور فلاح پاجائو۔ فلاح وکامرانی ،نجات ومغفرت کے حصول کیلئے ایمان والوں پر دو طرح کے حقوق عائد کئے گئے۔ ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد ،حقوق اللہ میں اللہ سبحانہ وتعالی پر ایمان لانا ، اللہ کی کتابوں ، فرشتوں ،رسولوں اور قضاء وقدر پر ایمان کے ساتھ موت وآخرت اور اُخروی زندگی سے متعلق سارے امور جیسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانا ، حشر ونشر ،جنت ودوزخ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکامات کی اتباع وپیروی اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عبادات کا اہتمام حقوق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے واضح احکامات بیان فرمائے ۔

دوسرے حقوق العباد یعنی انسانوں کے آپسی معاملات وتعلقات اس کی تفصیل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمائی اور ان سب پر عمل فرماکر ایک بہترین نمونہ رہتی دنیا تک کی انسانیت کیلئے چھوڑا ۔اس طرح بندگی وعبدیت کے تقاضوں کی تکمیل ،انسانی اخلاق وکردار ،اعلی ظرفی و اعلی حوصلگی کے اعلی مراتب وسلوک کی راہ دکھائی۔ حضرت نبی پاک سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانوں کے آپسی معاملات وتعلقات کی اہمیت عبادات سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کے حقوق کی ادائیگی تو ظاہر ہے ایمان کا لازمہ ہے لیکن اس میں کسی طرح کی کمی وکوتاہی اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ رحمت میں معاف ہوسکتی ہے ۔صرف کفر اور شرک کے سواء سارے قصور معاف ہوسکتے ہیں ۔ارشاد باری ہے ۔ بے شک اللہ سبحانہ وتعالی اس کے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشے گا اور اس کے سواء جسے چاہے وہ بخش دے اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک کرے تو اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا۔ (النساء /۴۸)

اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات رحمن ورحیم ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور رحم کرنے والا نہیں اس کی رحمت کے دروازے ہر نیک وبد کیلئے کھلے ہوئے ہے،اس کی شان رحمت یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی میں ہونے والی کوتاہیوں کو درگزر فرماتا ہے ،لیکن بندوں کے حقوق وہ ہیں جن کی معافی اللہ سبحانہ وتعالی نے خود ان انسانوں کے ہاتھ میں دی ہے جن پر کسی طرح کی کوئی زیادتی ہوئی ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ہر عیب ونقص سے منزہ ہے، غنی وبے نیاز ہے وہ چاہتا تو خود معاف فرمادیتا لیکن عدل وانصاف کی بات تو یہی ہے کہ جس پر ظلم ہوا ہو وہ پہلے معاف کرے ،یہی وجہ ہے کہ ظلم کرنے والے اور کسی کا حق دبانے والے انسان کو معافی حاصل کرنے کیلئے اسی انسان سے رجوع کرنا پڑے گا

جس پر اس نے ظلم کیا ہے یا اس کا حق دبایا ہے ۔ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے۔ایک انسان نے اگر کسی دوسرے انسان پر ظلم ڈھایا ہو تو اس ظالم انسان کو اسی دنیا میں اپنے مظلوم بھائی سے معافی وتلافی کرلینی چاہئے ورنہ آخرت میں اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ہوسکے گی۔ وہاں کسی کے ہاں مال ودولت تو نہیں ہوگی ہاں البتہ اعمال کا توشہ ساتھ ہوگا ایسے میں ظالم کے نامہ اعمال سے جو کچھ اس کی نیکیاں ہوں گی اس کے ظلم کی بھر پائی کیلئے مظلوم کے نامہ اعمال میں منتقل کردی جائیں گی ۔الغرض کفر وشرک وہ ظلم اکبر ہے جو ناقابل معافی ہے ۔ ان الشرک لظلم عظیم۔دوسرے بندوں کے حقوق ان کی ادائیگی میں کوتاہی ،بندوں کا حق ہونے کی وجہ ایک اعتبار سے نا قابل معافی ہے۔