قرآں کی شرح آپ کا خلق عظیم ہے (قسط دوم)

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

اسلام نے جو عبادات فرض کی ہیں اس میں اللہ سبحانہ وتعالی کی بڑائی وکبریائی اور اس کی عظمت ومرتبت اس کی تسبیح وتنزیہہ اور بندگان خدا کی بندگی وعبدیت ،عاجزی وفروتنی ،انکساری وخاکساری کے جلوے جھلکتے ہیں لیکن ان عبادات کی ایک غرض وغایت انسانی نفوس کا تزکیہ اور ان کے اندر تقوی وپرہیز گاری پیدا کرنا ہے ۔جب کسی انسان کا تزکیہ ہوجائے اور تقوی وپرہیز گاری اس میں پیدا ہوجائے توپھرظاہر ہے اس سے حقوق العباد ضائع ہی کہاں ہوسکتے ہیں ۔

عبادات سے تو انسان کے اخلاق سنور تے ہیں اور وہ سارے رذائل اخلاق جس کی ضرب راست طور پر خود اس انسان پر بھی پڑتی ہے جو اس کا حامل ہے اور ان پر بھی جو سماج ومعاشرہ میں رہتے بستے ہیں،ایسے سارے رذائل اخلاق عبادات کے کماحقہ اہتمام سے دور ہوجاتے ہیں ،اسلام کی عبادات میں اخلاقی تربیت کا راز پوشیدہ ہے ،جہاں ایمان اور ایمانی تقاضے عبادات وغیرہ کا اہتمام ہو اس معاشرہ پر اخلاقی ثمرات ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔عبادات کا اہتمام تو ہو لیکن خلق خدا ان عبادت کرنے والوں کے ظلم وستم سے مأمون ومحفوظ نہ ہو تو گویا ان کی عبادات بے ثمر ہیں ۔ اللہ کے آگے جھکنے ،عاجزی وفروتنی کے اظہار سے جب تک کبر وغرور کی اور اپنی بڑائی کی چادر کو تار تار نہ کردیا گیاہو اس وقت تک اس کی ساری عاجزی وفروتنی اور اس کی اللہ کے آگے جھکنے کی رسم بالکل بے معنی قرار پاتی ہے ۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ جو پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں اس میں صاف صاف اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کے نیک اور اس کے محبوب ومقبول بندے تو وہی ہوسکتے ہیں جو اخلاق کے اعلی منازل پر فائز ہوں ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے ۔حقیقی معنی میں رحمن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی وعاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جاہلوں سے جب کبھی ان کا سابقہ ہوتا ہے تو وہ سلام کرکے گزر جاتے ہیں اور اپنے رب کے آگے سجود وقیام میں اپنی راتیں بتاتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب دوزخ کے غذاب سے ہمیں دور رکھئے کیونکہ اس کاعذاب چمٹ جانے والا ہے ،بیشک وہ(جہنم) قائم رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس میں نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ کنجوسی بلکہ درمیانی انداز سے خرچ کرتے ہیں ۔اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور کسی ایسے فرد کو جس کا قتل کرنا اللہ نے حرام قراردیا ہے قتل نہیں کرتے۔ الا یہ کہ وہ بطور حق کے ہو ،نہ تو وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا ۔(الفرقان/۶۳تا۶۸)

ان آیات پاک میں ایمان والو ںکے مؤمنانہ صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے ،ان صفات کے حامل انسان معاشرہ کے نیک وصالح افراد ہوتے ہیں، معاشرہ کی ساری خرابیاں نیکی وصالحیت کی وجہ خود بخود دور ہوتی ہیں، معاشرہ کی صلاح وفلاح کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور ان جیسے افراد سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
حسن خلق کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی دعا مانگی ہے ۔اللہم اہدنی لاحسن الاخلاق لا یہدی لاحسنہا الا انت واصر ف عنی سیئہا لا یصرف عنی سیئہا الا انت ۔ اے اللہ اچھے اخلاق کی رہبری فرمائیے کہ آپ کے سوا اچھے اخلاق کی رہنمائی کوئی اور نہیں کرسکتا ۔برے اخلاق کو مجھ سے دور فرمادیجئے کہ آپ کے سوا کوئی ان کو دور نہیں کرسکتا۔(مسلم ،باب الدعاء فی الصلوۃ)امت کیلئے بڑی رہنمائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حسن اخلاق کا پیکربنائے ،عملی طور پر اخلاق عالیہ اختیار کرنے کیلئے حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی سے روشنی حاصل کرے ،رذائل اخلاق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے ،اور یہ چیز مجاہدہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ،اس لئے اپنے نفس پر جبر کرکے اصلاح کی جدوجہد میں مصروف رہے اور اس مجاہدہ پر کسی طرح کا غرہ بھی نہ ہو بلکہ بندگی کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں معروضہ پیش کرے کہ مولی آپ کے فضل وکرم کے بغیر یہ مرحلہ طئے نہیں ہوسکتا ،بس آپ فضل وکرم فرما ئیے۔ظاہر ہے اللہ کے نبی سیدنا محمد رسو ل اللہ ﷺ کی مبارک دعا دراصل اسی بات کی ترجمان ہے ۔

اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ وہ بندے اللہ کو محبوب ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہوں (الحدیث)اللہ سبحانہ وتعالی نے انسانوں کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے، اس کی نوازشات اور عطائوں کا کوئی حد وشمار نہیں لیکن حدیث پاک میں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے بندوں کو جو چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں ان سب میں اچھے اخلاق عظیم نعمت ہیں اسی لئے ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کے دن میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ اور کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی ۔انسان اچھے اخلاق سے وہ درجہ ومرتبہ پالیتا ہے جو دن بھر روزہ رکھ کر اور نماز پڑھ کر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ اخلاق عالیہ کے حامل بندے بروز قیامت اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اور محبوب ہوں گے ، اور ان کو آپ ﷺ کا قرب نصیب ہوگا ۔اس کے برعکس جو بد خلق ہوں گے وہ آپ ﷺ کو بڑے ناپسند ہوں گے اور قیامت کے دن حضور پاک ﷺ کے قرب سے محروم ہوں گے ۔
جو لوگ حسن اخلاق کے مالک ہیں ان کیلئے بشارت وخوشخبری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے صفات کاملہ کے اس دنیا میں گویا مظہر ہیں ۔حسن الخلق خلق اللہ الاعظم۔ (طبرانی)حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے صفات کاملہ کاپرتو بنایا ہے

حضور پاک سید العالمین ﷺ اخلاق کے اعلی مرتبہ پر فائز ہیں ۔ وانک لعلی خلق عظیم (القلم /۴)یہاں خلق عظیم سے مرادایمان واسلام بھی ہے اوردین و قرآن بھی ،ایمان واعمال کے اعتبار سے بھی کوئی آپ کا ہم پلہ نہیں ،اخلاق وکردار میں بھی آپ کا کوئی ثانی یا مثل نہیں ،آپ کی عبدیت وبندگی بھی انتہائی معراج پر ہے ،اخلاق وکردار کی بھی انتہائی بلندیوں پر آپ فائز ہیں ،آپ کی پاکیزہ زندگی قرآن پا ک کی ایک عملی تصویر ہے ،تہذیب وشائستگی ،رأفت ورحمت ،شفقت وعنایت ،امانت ودیانت ، حقانیت وصداقت،تحمل وبردباری ،سنجیدگی ومتانت ،رحم وکرم، عدل واحسان ، عفوودرگزر، توسط واعتدال جیسے الفاظ کا حقیقی معنی میں کہیں وجو د مل سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف آپ ﷺ کی ذات گرامی ہے ۔ ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا کہ حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیا تھے ۔ تواماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ۔کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ۔ کان خلقہ القرآن۔آپ ﷺ کے اخلاق سرتاپا قرآن کی عملی تفسیرہیں۔ قرآن تو الفاظ کی صورت میں اللہ کا کلام اور ایک دستور اور قانون ہے جس میں خلق وخالق کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے احکام بیان ہوئے ہیں ۔ لیکن آپ ﷺ کی ذات گرامی اس کی عملی جلوہ گاہ ہے ۔
قرآں کی شرح آپ کا خلق عظیم ہے
اللہ کی کتاب ہے سیرت رسول کی