قرآن کریم سر چشمۂ ہدایت اور انقلابی کتاب

مولانا محمد مبشر احمد رضوی
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان کلام جو خاتم النبینﷺ کی بارگاہ میں نازل ہوا ۔ یہ کلام رب ، دین اسلام کا سرچشمہ ، رشد و ہدایت کا منبع ، دعوت و ارشاد کا مصدر ، علم و عرفان کا خزانہ اور بے شمار کمالات و محاسن کے ساتھ پوری دنیائے انسانیت کے لیے ناقابل تسخیر ، کتاب انقلاب ہے ۔ مشہور مفسرین اور تمام ارباب تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید ماہِ رمضان المبارک اور شب قدر میں یکبارگی ، لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف نازل کیا گیا ۔ اس کی تائید قرآن عظیم اور احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا ۔ سورہ قدر کی آیات سے بھی اس کی تائید ہورہی ہے کہ ’’بلا شبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اُتارا‘‘ ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ توریت کا نزول ، ۶ رمضان المبارک کو ، انجیل کا نزول ، ۱۳ رمضان المبارک کو زبور کا نزول ،۱۸ رمضان المبارک کو اور قرآن عظیم کا نزول ، ۲۶ رمضان المبارک کو ہوا ۔
حضور اقدس ﷺ ، آیات قرآنیہ کے نزول کے فوراً بعد آپ انہیں صحابہ کرام ؓ کو سناتے سیدالانبیاء محبوب کبریا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو قرآن پڑھے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا تو قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج سے زیادہ بہتر ہوگی ۔ جب قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو یہ اعزاز بخشا جائے گا تو بھلا خود پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کا کیا حال ہوگا یقینا اس کو اس سے زیادہ روشن و منور تاج سے نوازا جائے گا ۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کی اولاد قرآن پڑھتی اور اس پر عمل کرتی ہے ۔ سرکار دوعالم ﷺ نے نہ صرف قرآن پڑھنے والوں کی فضیلت بیان فرمائی بلکہ اسے حفظ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ حافظ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احکام قرآنیہ پر صدق دل سے عمل کرے گا تو اسے جہنم کی آگ نہ جلائیگی ۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قرآن کا پڑھنا عبادت ، اس کا سننا عبادت ، اس کو دیکھنا اور چھونا بھی عبادت ہے ۔ نزول قرآن کے بعد شعرائے عرب مکہ معظمہ کی دیواروں پر قصیدے لکھ کر یہ چیلنج کرتے تھے کہ وہ فصاحت و بلاغت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ مگر جب قرآن مبین کی آیتیں نازل ہوئیں تو ان کے حواس گم ہوگئے لیکن طنزیہ ، یہ کہنے لگے کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن جیسا کلام بول سکتے ہیں جواباً قرآن نے کہا کہ اگر یہ لوگ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو قرآن کی طرح ایک آیت لے آئیں لاکھ کوشش کے باوجود ، فصحائے عرب قرآن کے اس دعوے کے سامنے عاجز اور قاصر ہوگئے پھر قرآن نے دوبارہ چیلنج کیا کہ اگر تم پورے قرآن کا مثل نہیں لاسکتے تو اس جیسی دس (۱۰) ہی سورتیں بناکر لاؤ ۔ لیکن کافی جدوجہد کے بعد بھی اہل عرب سے یہ نہ ہوسکا پھر قرآن نے مزید رعایت کا اعلان کیا کہ تم اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ لیکن وہ اس سلسلہ میں بے بس اور لاجواب ہوگئے ۔ تجلیاتِ قرآنیہ سے تمام عالم منور ہوگیا۔ یقینا یہ بے مثال کلام تمام انسانیت کے لیے سرمایۂ حیات ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حامل قرآن بنائے اور فیضان قرآن کو عام فرمائے ۔ آمین