قران

بلاشبہ رات کا قیام (نفس کو) سختی سے روندتا ہے اور بات کو درست کرتا ہے۔ (سورہ مزمل۔۶)
رات کو خواب راحت سے بیدار ہونا، نرم اور گرم بستر سے اٹھ کر وضو کرنا، نماز پڑھنا اور ذکر اذکار کرنا نفس کے لئے بہت گراں ہے، اس لئے جو شخص شب بیداری اور سحر خیزی کو اپنی عادت بنا لیتا ہے، وہ گویا سرکش نفس کی سرکوبی کر رہا ہے اور اس کے غرور و نخوت کو پاؤں تلے روند رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے چند روز تو نفس اس کو ناگوار سمجھتا ہے اور اس سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کو اٹھاکر مصلیٰ پر کھڑا کردیا جائے تو اونگھنے لگتا ہے، نماز میں خشوع و خضوع نہیں پیدا ہوتا۔ کم ہمت سالک یہ خیال کرکے کہ اس نماز سے کیا فائدہ، جس میں خضوع نہ ہو، نفس کے اس فریب کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے، لیکن ارباب عزیمت نفس کی ان چالوں میں نہیں آتے۔ وہ اس کی ان حرکتوں کے باوجود سحری کو اٹھنے کی مشق جاری رکھتے ہیں۔ چند روز بعد جب ان کا سرکش نفس سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح ان کے اشارے پر عمل کرنے لگتا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ اس لئے فرمایا کہ نفس کے غرور کو کچلنے کے لئے اور اس کی سرکشی کو ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ بڑا کارگر ہے، اسے شب بیداری سے خوب لتاڑو، چند دن میں ہی یہ رام ہو جائے گا اور اس کی خرمستیاں باقی نہیں رہیں گی۔ علامہ بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’نفس بچے کے مانند ہے، اگر تم اس کا دودھ نہ چھڑاؤ تو وہ جوان ہونے تک ماں کا دودھ پیتا رہے گا اور اگر تم اس کا دودھ چھڑادو تو چند روز شور مچانے کے بعد وہ خود ہی ماں کا دودھ چھوڑ دے گا‘‘۔ شب بیداری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس وقت قرآن کریم کی تلاوت بڑے صحیح طریقہ پر ہو سکتی ہے، نہ شور و شغب ہوتا ہے اور نہ کسی اور کام کی جلدی ہوتی ہے۔ انسان مزے لے لے کر اللہ تعالی کے اس پاک کلام کی تلاوت کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔