قران

جو پہنچے آپ کو بھلائی سو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو پہنچے آپ کو تکلیف سو وہ آپ کی طرف سے ہے اور بھیجا ہم نے آپ کو سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر اور کافی ہے اللہ تعالیٰ (آپ کی رسالت کا ) گواہ۔ (سورۃ النساء : ۷۹)
یہاں خطاب نوع انسانی کے ہر فرد کو ہے یا خطاب حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ سکھ آرام اور خوشحالی تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے اور دکھ، تکلیف اور تنگی وغیرہ انسان کی اپنی طرف سے ہے۔ علامہ بیضاوی فرماتے ہیںہر کام کا موجد حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہے لیکن آرام وخوشحالی کا باعث اس کا احسان ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے بندہ کا امتحان بھی لیا جائے کہ وہ اس انعام پر کیسے شکر اداکرتا ہے۔ اور تکلیف ورنج کا باعث انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غفلتیں ہو ا کرتی ہیں۔ اس کی واضح مثال آپ کو غزوہ احد میں ملے گی۔ جس ہزیمت سے مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا اگرچہ اس کا موجد تو رب تعالیٰ ہی تھا لیکن پہاڑی درہ پر متعین دستہ کی جلد بازی اس کا سبب بنی تھی۔ دوسرے بیجوں کی طرح انسان کے اعمال بھی اپنے مخصوص برگ وبار رکھتے ہیں۔ انسان کو ہر کام کرتے وقت اس کے مآل وانجام پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے۔ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے اور ہرزمانہ کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ اور رسول کی تشریف آوری کی غایت بھی بتائی جا چکی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے تو اب کون ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنا رسول تو تسلیم کرے اور آپ کی اطاعت سے منحرف ہو۔ اور آیات بینات میں دو راز کا ر تاویلات کرتا رہے۔