قرآن پاک میں عصمت ِانبیاء کرام

مولانا غلام رسول سعیدی
اس وقت دنیا میں جس قدر آسمانی کتابیں موجود ہیں، اُن میں صرف قرآن کریم کا ہی یہ امتیاز ہے کہ اس نے تمام انبیاء کرام کی سیرت کے تقدس کا تحفظ کیا ہے اور انھیں ایک صالح اور برگزیدہ انسان کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اگر آج اسرائیلی یا عیسائی حضرت خضر، حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی حیات صالحہ کا مطالعہ کرنا چاہیں تو انھیں بھی اسرائیلی صحائف کو چھوڑکر آیاتِ قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں اس بات کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے کہ ’’کتاب مقدس‘‘ نے انبیاء کرام کو دنیا کے سامنے کس حیثیت سے پیش کیا اور قرآن نے کس اعتبار سے۔
کتاب مقدس میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ ’’نوح کاشت کاری کرنے لگے، انھوں نے انگور کا ایک باغ لگایا اور انھوں نے اس کی مَے پی اور انھیں نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرہ میں برہنہ ہو گئے اور کنعان کے باپ حام نے اپنے باپ کو برہنہ دیکھا اور اپنے دونوں بھائیوں کو باہر آکر خبر دی‘‘ (پیدائش، باب۹ آیت:۲۰تا۲۲) جب کہ قرآن پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا: ’’سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں، بلاریب ہم نیکو کاروں کو یونہی جزا دیتے ہیں اور بلاشبہ وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں سے ہیں‘‘۔
(سورۃ الصّٰفّٰت۔۷۹تا۸۱)
’’کتاب مقدس‘‘ میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ ’’اور لوط صخر سے نکل کر پہاڑ پر جابسے اور ان کی دونوں بیٹیاں ان کے ساتھ تھیں، کیونکہ انھیں صخر میں بستے ڈرلگا اور وہ اور ان کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگیں۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارے باپ ضعیف ہیں اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے مطابق ہمارے پاس آئے۔ آؤ ہم اپنے باپ کو مے پلائیں……‘‘ (اس سے آگے بڑی شرمناک عبارت ہے، جسے مضمون میں شامل کرنے کا اس عاجز راقم الحروف میں حوصلہ نہیں) (پیدائش، باب۱۹آیت ۳۰تا۳۶) جب کہ قرآن پاک میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا: ’’اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو حکم اور علم عطا کیا اور انھیں اس بستی سے نجات دی، جس میں رہنے والے حرام کاری کرتے تھے۔ بے شک اس بستی کے لوگ بدکار فاسق تھے اور ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا اور بلاریب وہ صالحین میں سے تھے‘‘۔ (سورۃ الانبیاء۔۷۴،۷۵)
کتاب مقدس میں حضرت سلیمان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ ’’اور سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی‘‘ (سلاطین، باب۱۱، آیت۶) جب کہ قرآن پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا: ’’اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا، کیا ہی اچھے بندے تھے، وہ خدا کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے‘‘۔ (سورہ صٓ۔۳)
کتاب مقدس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر اس طرح کیا گیا: ’’پھر کسی نے ان سے سوال کیا کہ اے نیک استاد! میں کیا کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنو؟‘‘۔ یسوع نے کہا ’’تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے، کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘ (لوقا، باب۱۸، آیت۱۸،۱۹) اسی طرح ایک جگہ بیان کیا گیا ’’مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا، اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا، کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں، باب۳، آیت۱۳) جب کہ قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ’’اے مریم! بے شک اللہ تجھے اپنے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے، اس کا نام مسیح عیسی بن مریم ہے، وہ دنیا اور آخرت میں وجاہت والا اور مقربین میں سے ہے۔ وہ لوگوں سے مہد اور ادھیڑ عمر میں کلام کرے گا اور وہ صالحین میں سے ہوں گے‘‘ (سورہ آل عمران۔۴۵،۴۶) یعنی کتاب مقدس کی نظر میں نبی اور کاہن دونوں ناپاک ہیں۔ (برمیاہ، باب۲۳، آیت۱۱)
کتاب مقدس اور قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کے تقابل سے ظاہر ہو گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت و ناموس کا ضامن صرف قرآن کریم ہے، ورنہ ’’کتاب مقدس‘‘ کے مجموعہ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کسی نبی کی عصمت کو مجروح کئے بغیر نہیں چھوڑا۔ ’’کتاب مقدس‘‘ نے تمام انبیاء کرام کو بالعموم ناپاک قرار دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بالخصوص لعنتی ٹھہرایا۔ اس کے برعکس قرآن کریم نے انبیاء کرام علیہم السلام کو بالعموم ہدایت اور پاکیزگی کا سبب اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود کو بالخصوص رحمت قرار دیا۔