قانونِ قصاص کی معنویت

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ قسط اول

انسان کی جان اللہ سبحانہ کے ہاں بڑی قیمتی اور قابل قدر ہے اس کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم نازل فرمایا کہ جو کوئی کسی کو قتل کر دے جب کہ اس نے کسی کا قتل نہیں کیا نہ ہی زمین میں کوئی فساد برپا کیا تو گویا اس نے کئی انسانوں کا قتل کیا۔ (المائدہ: ۳۲)

قتل ناحق کی سنگینی کا جرم کتنا زیادہ ہے یہ تو اس آیت پاک سے واضح ہے۔ ایک انسان کی جان کتنی اہمیت رکھتی ہے اور وہ کس قدر قابل احترام و تکریم ہے کہ ایک انسان کے قتل کو انسانیت کے قتل تعبیر کیا گیا ہے، اس اٰیت پاک میں بیان کردہ حکم کے مخاطب صرف بنی اسرائیل ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے سارے ہی انسان اس کے مخاطب ہیں۔ اس آیت پاک سے جہاں انسانی جان اور اس کے خون کی حرمت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بھی کہ انسانی جان کے احترام اور اس کی تکریم سے انسانی معاشرہ کی صلاح و فلاح کا کتنا گہرا تعلق ہے، معاشرہ میں امن و آمان کا قیام اس کے بغیر کہاں ممکن۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہمارے سماج میں قتل و غارت گری عام ہے، گھر سے باہر نکلنے والا اپنی جان ہتھیلی میں لئے نکلتا ہے یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ صحیح و سلامت گھر واپس لوٹ سکے گا یا نہیں۔

ہر سلیم الفطرت و سنجیدہ طبیعت یہی چاہے گا کہ معاشرہ میں امن و آمان ہو، راستوں میں کسی کیلئے کوئی خوف و خطرہ نہو، جان و مال ہی نہیں بلکہ عزت و آبرو کی حفاظت کی ہر ایک کیلئے طمانیت ہو، تجارتی قافلے اپنے ساز و سامان کے ساتھ بے خطر ملک کے طول و عرض میں سفر کر سکیں، طلب معاش کی جستجو اور ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے جانے آنے میں کسی کو کوئی خوف و خطرہ درپیش نہو۔
اس طرح کے خوف و خطرات سے حفاظت اور امن و آمان کے قیام کیلئے اسلام نے دو طریقہ اختیار کئے ہیں ایک طریقہ ہے اصلاح کا کہ سارے انسانوں کو اللہ واحد کی معرفت کروائی جائے اور اپنے خالق و مالک کے احکامات کا ان کو پابند کیا جائے۔ چنانچہ اسلام کا ماننے والا بشرطیکہ وہ سچے دل سے اور پوری بشاشتِ قلبی کے ساتھ اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہو، وہ تو پھر اپنے رب کی معرفت سے اس قدر سرشار رہتا ہے کہ احکام الہی کی پابندی سے سرمو انحراف نہیں کرتا اللہ سبحانہ کا خوف، آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور اسے ہر جرم و گناہ سے محفوظ رکھتا ہے۔

حفاظت کی یہ ایسی ڈھال ہے جو سچے ایمان والوں کو نصیب ہے، اسلام کے دامن رحمت میں جس معاشرہ کو پناہ حاصل ہو جائے اس کے کیا کہنے، وہ معاشرہ تو امن و آمان کو گہوارہ بنا رہے گا۔ نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کی روشنی سے جو محروم ہیں بلا شبہ وہ بڑے محروم ہیں سب کچھ پاکر بھی حقیقی چین و سکون سے محروم۔ ایک کسک ہے کہ جو دل میں کچو کے لگاتی رہتی ہے جس سے بیقراری نہ صرف برقرار رہتی ہے بلکہ نادم زیست ایک خلجان جی کا جنجال بنا رہتا ہے،انسانیت کا یہ طبقہ جو اسلام سے دور ہے اخروی جزاء و سزاء کا تصور ہی جس کے ہاں مفقود ہے اس کے لئے بھی اور اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے خوف اور آخرت کے خوف سے بے نیاز رہنے والوں کیلئے بھی ’’مکافات عمل‘‘ کا فطری قانون جرائم سے محفوظ رکھنے کیلے کافی ہے۔ یہ وہ فطری قانون قدرت ہے جس کا دن رات مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اس دنیا میں اکثر ہر عمل کے ساتھ ردّعمل لگا ہوا ہے جس سے شاید ہی کوئی محفوظ رہ سکے، اچھا کرنے والوں کو اچھائی کا، برا کرنے والوں کو برائی کا پھل ملتا ہے یہ تو قانون قدرت ہے لیکن بسااوقات اللہ سبحانہ ڈھیلی ڈوری چھوڑ دیتے ہیں وہ بھی امتحان کی غرض سے یا اپنے جذبۂ ترحم سے کہ اس مہلت سے انسان سنبھل جائے۔ اور جرائم سے توبہ کر کے نیکی و بھلائی کی راہ اختیار کر لے۔

اللہ سبحانہ کا ڈر و خوف اور آخرت کی بازپرس کا خوف و خطرہ یا کم از کم ’’مکافات عمل‘‘ کا سخت اندیشہ کسی کو جرائم سے باز نہ رکھ سکے، بلا جھجک قتل و خون سے جس کے ہاتھ رنگین ہوتے رہیں اس کے لئے اسلام نے دوسرا طریقہ مقرر کیا ہے جس کو ’’قانون قصاص‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے ’’اے ایمان والو تم پر قصاص کو فرض کر دیا گیا ہے ان کے بارے میں جو ناحق قتل کر دئے جائیں آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت (البقرہ: ۱۷۸) یعنی عمداً وارادۃً قتل کرنے والے پر قصاص کا وجوب ثابت ہے۔ اس اٰیت پاک میں ’’قتلیٰ‘‘ فرمایا گیا ہے جو قتیل کی جمع ہے اور وہ آزاد، غلام مسلم، غیر مسلم، مرد و عورت ہر ایک کو شامل ہے۔ یہ وضاحت بھی فرمائی گئی کہ قاتل ہی کو ’’قصاص‘‘ میں قتل کیا جائے گا قاتل خواہ کوئی ہو اس کے معاوضہ میں کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جائے گی۔ اس میں دراصل تردید مقصود ہے اس طرز عمل کی جو دور جاہلیت میں رائج تھا، جس میں کسی قاعدہ و ضابطہ کی پابندی نہیں تھی، جو زور آور ہوتے وہ کمزوروں پر ظلم ڈھاتے، کسی ذی اثر اور طاقتور قبیلہ کا فرد قتل کر دیا جاتا تو اس کا بدلہ صرف قاتل ہی سے نہیں بلکہ اس کے قبیلہ کے اکثر افراد یا پھر پورے قبیلہ والوں سے لیا جاتا، معصوم و بے گناہ افراد کو قتل و خون کی آگ میں جھونک دیا جاتا ، اس طرح اپنے جوش انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا۔ کہیں عورت قتل کا ارتکاب کرتی تو اس کے بدلے مرد کو اور کوئی آزاد قتل کرتا تو غلام کو اس کے معاوضہ میں قتل کیا جاتا۔ اسلام نے اس ظالمانہ رواج کی بیخ کنی کی اور قاتل ہی کو قتل کی پاداش میں قتل کرنے کی ہدایت کی یعنی قاتل آزاد ہو تو اسی آزاد کو، غلام ہو تو اسی غلام کو، عورت ہو تو اسی عورت کو، مرد ہو تو اسی مرد کو بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔

قصاص کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اللہ سبحانہ نے معافی کی گنجائش بھی رکھی ہے اسی آیت میں فرمایا گیا ، ’’ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے معافی مل جائے تو اچھی بات کی اس کو پیروی کرنا چاہیے اور بہتر انداز میں دیت (خوں بہا) ادا کرنا چاہئیے۔ یہ دراصل تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے‘‘۔ اس آیت پاک کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے، ’’اے عقل و دانش رکھنے والو قصاص یعنی خون کا بدلہ لینے میں تمہارے لئے زندگی و حیات ہے کہ تم اس کی بناء خونِ ناحق سے بچ سکو گے‘‘ (البقرہ: ۱۷۹)

قصاص کے معنیٰ مماثلت کے ہیں۔ یعنی ظالم نے جتنا ظلم کیا ہے اسی قدر اس سے بدلہ لیا جائے۔ اسلام نے ظالم کے ساتھ بھی انصاف کی تاکید کی ہے زیادتی جسقدر ہوئی ہے اس سے بڑھ کر زیادتی کرنے کی اسلام نے اجازت نہیں دی۔ شرعی نقطۂ نظر سے قصاص کہتے ہیں ایسی سزا کو، کہ بدلے میں قتل کرنے یا زخمی کرنے میں مماثلت و برابری کا لحاظ رکھا جائے۔ قصاص ہی کے ضمن میں اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے۔ ’’جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان کے ساتھ اتنا ہی زیادتی کا برتائو کرو جتنا کہ انہوں نے کیا ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جان لو کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرہ: ۱۹۴)۔ اور اگر بدلہ لینا چاہو تو اسی قدر جتنا کہ تم کو ضرر پہونچا یا گیا ہے۔ اور اگر تم صبر کرلو تو بے شک یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔( النحل:۱۲۶)

بدلہ لینے کی گو کہ اجازت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ حد سے تجاوز نہ ہو اگر اس میں حد سے تجاوز ہو جائے تو یہ خود ظلم کی تعریف میں آجائے گا جو شرعاً منع ہے حسب مصلحت معاف کر دیا جائے اور صبر اختیار کر لیا جائے تو یہ اللہ کو بہت پسند ہے۔

اس وقت دنیا میں قتل کے نت نئے عنوانات ہیں،کہیں سیاسی رقابت قتل و خون کا باعث بنتی ہے تو کہیں کاروباری و تجارتی معاملات، کہیں سماجی اور مالی حیثیت، کہیں مال و دولت چھیننے کی ہوس، کہیں مذہبی منافرت، کہیں عہدہ و کرسی کی خواہش، کہیں فساد مچاتے ہوئے معصوم و بے گناہ شہریوں کا قتل نہ جانے ایسے کتنے عناوین ہیں جو قتل و غارت گری کا باعث ہیں، جنہوں نے سماج کے چین و سکون کو درہم برہم کر دیا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے سیاسی ، سماجی، مذہبی سب ہی طبقے فکر مند ہیں اور پریشان ہیں کہ سماج سے اس لعنت کو کیسے دور کیا جائے۔ ظاہر ہے سماج کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلانے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسلامی قوانینِ حدود و قصاص پر عمل کہ اسی سے معاشرہ میں امن و سکون قائم ہوسکتا ہے یقینا اسلام کے یہ قوانین باعث رحمت ہیں ساری انسانیت کے لئے اس مصیبت کا حل تلاش کرنے والوں کو اسلام کے وہ قوانین جو آج سے چودہ سو سال پہلے خالق کائنات نے نازل فرمائے ہیں اسی کو حق مان کر پھر سے ان کو دنیا میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔