فکر کے گھوڑے مت دوڑاؤ

ہر وہ انسان جو قیامت پر یقین نہیں رکھتا، اسی قسم کے وسوسوں میں پھنسا رہتا ہے۔ وہ جب یہ سوچتا ہے کہ لوگوں کو مرے ہوئے سیکڑوں اور ہزاروں سال گزرچکے ہیں، ان کی قبروں کے نشان تک ناپید ہیں، ان کی ہڈیاں گل کر مٹی میں مل گئیں اور اس مٹی کے ذروں کو ہوا کے جھونکے صدہا بار الٹ پلٹ کرچکے اور کہیں کا کہیں اڑاکر پھینک آئے، لہذا دشت و جبل میں بکھرے ہوئے ان ذروں کا اکٹھا ہو جانا کیسے باور کرلیا جائے؟۔ پھر کئی انسان تو ایسے تھے جو سمندر میں غرق ہوئے اور مچھلیوں کا نوالہ بن گئے، کئی لاشوں کو گدھ اور دوسرے پرندے چٹ کر گئے، کسی کو آگ نے جلاکر راکھ کردیا، ان سب کا جمع ہونا، پھر ان کا پہلی حالت میں لَوٹ کر وہی انسان بن جانا قطعاً محال اور ناممکن ہے۔ وہ اپنے فکر کے گھوڑے دوڑاتے اور آخر اس نتیجہ پر پہنچتے کہ قیامت کا برپا ہونا محض گپ ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہاں ’’انسان‘‘ سے مراد کوئی خاص انسان ہو، جیسے روایات میں مذکور ہے کہ اس سے عدی بن ربیعہ مراد ہے۔ وہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور قیامت کے بارے میں پوچھنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بتایا کہ ’’قیامت ضرور ہوگی۔ ہر انسان کو اس کی نیکیوں کی پوری جزا اس دنیا میں نہیں مل سکتی اور نہ اس کو اس کی بدکاریوں کی پوری سزا یہاں ملتی ہے۔ انسان کے باشعور اور بااختیار ہونے کا یہ تقاضہ ہے کہ ایسا دن آئے، جب عدل کا ترازو رکھا جائے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کی پوری پوری جزا و سزا ملے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ربیعہ کو پوری طرح سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ کہنے لگا: ’’اگر میں قیامت کو برپا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں، تب بھی میں آپ کی تصدیق نہیں کروں گا اور نہ اس پر ایمان لاؤں گا‘‘۔