فساد متاثرین پر سیاست

اتر پردیش کے مظفرنگر ضلع میں جب گذشتہ سال فساد پھوٹ پڑا تو ہر گوشے سے یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ اس فساد کے مقاصد سیاسی ہیں۔ بی جے پی چونکہ لوک سبھا انتخابات کیلئے تیاریوں کا آغاز کرچکی ہے اور اس نے چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو اپنا وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا ہے ایسے میں ملک کے مختلف حساس مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کا پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ اس خیال کو مختلف واقعات سے تقویت حاصل ہوئی اور بعد میں جس طرح سے سماجوادی پارٹی نے فساد متاثرین کے ساتھ غیر انسانی سلوک اختیار کیا اور ان کو راحت اور امداد پہونچانے سے جس طرح سے مجرمانہ غفلت برتی تھی اس کے بعد یہ الزامات بھی عائد کئے جانے لگے کہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی نے خفیہ سازباز کے ذریعہ یہ فساد برپا کروایا ہے جس کا مقصد دونوں ہی جماعتوں کے انتخابی امکانات کو بہتر بنانا تھا ۔ تاہم یہ خیال کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فساد کے متاثرین کے تعلق سے سیاست شروع ہوجائیگی ۔

پہلے تو فساد متاثرین فساد میں لٹے پٹے ریلیف کیمپوں میں پہونچے تھے اور ان کے عزیز و اقربا موت کی نیند سلادئے گئے تھے ۔ پھر ریلیف کیمپوں میں ان کے ساتھ جو حالات پیش آئے وہ سارے ملک کے سامنے ہیں۔ وہاں انتہائی سردی کے عالم میں ریلیف کیمپ میں بھی اموات ہوئیں جنہیں کوئی سہولت مہیا نہیں تھی ۔ مختلف سیاسی قائدین نے ریلیف کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے درمیان میں یہ ریمارک کرتے ہوئے سنسنی پھیلا دی کہ پاکستان کی آئی ایس آئی مظفر نگر فساد متاثرین سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ان کا ادعا تھا کہ ایک انٹلی جنس عہدیدار نے ان سے شخصی بات چیت میں یہ انکشاف کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے تاہم اس کی کوئی توثیق نہیں کی ۔ اس وقت مختلف گوشوں سے شدید رد عمل کے بعد اس تعلق سے خاموشی اختیار کرلی گئی ۔ تاہم اب ایک بار پھر ایک نیا تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لشکر طیبہ کے دو کارکنوں نے فساد متاثرین سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں لشکر میں شامل کرنے کی ترغیب دی تھی ۔ حالانکہ دہلی پولیس نے اس تعلق سے واضح کردیا ہے کہ لشکر کے دو مشتبہ کارکنوں نے جن دو افراد سے ملاقات کی تھی وہ فساد متاثرین نہیں تھے اور نہ ہی ان کا کسی طرح کے تشدد سے کوئی تعلق ہی رہا تھا ۔

پولیس اور سکیوریٹی ایجنسیوںکے دعووں سے قطع نظر اس بے بنیاد الزام پر بھی سیاست شروع ہوچکی ہے ۔ کانگریس نے راہول گاندھی کے ریمارکس کو درست قرار دینے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور کہا ہے کہ راہول نے آئی ایس آئی کے فساد متاثرین سے رابطے کی جو بات کی تھی وہ درست ثابت ہو رہی ہے ۔ بی جے پی نے بھی جو کانگریس کی ہر بات کو جھٹلانے پر مصر رہتی ہے اب اس بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ لشکر کے رابطوں کی تحقیقات کروائی جانی چاہئیں ۔حالانکہ یہ معاملہ ہریانہ کے دو افراد کا ہے جو ان کے مطابق امام تھے اور انہوں نے ایک مسجد کی تعمیر کیلئے رقم جمع کرنے کسی کے مبینہ اغوا کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اس منصوبہ کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ حقائق معلوم ہوسکے لیکن جس طرح سے فساد متاثرین کو نشانہ بنانے کا عمل شدت اختیار کرگیا ہے وہ کسی کیلئے بھی بہتر نہیں ہے ۔ فساد متاثرین پہلے ہی پریشان حال ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کو فساد کی آگ نے نگل لیا ہے ۔ ان کے مکانات لوٹ لئے گئے ہیں۔ انہیں اپنے گھروں کو واپس ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں ریلیف کیمپوں میں انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گذارنی پڑ رہی ہے ۔ وہاں بھی انہیں شدید سردی کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی زندگیوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے ۔ ایسے میں انہیں کسی طرح کی امداد اور کسی طرح کی راحت پہونچانے کی بجائے انہیں شک کے دائرہ میں لا کھڑا کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں اپنی سیاست چل رہی ہیں۔ ان کے پیش نظر محض سیاست اور انتخابی فائدہ ہے ۔ وہ اس طرح کے الزامات اور ریمارکس سے ہونے والے اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں ان حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہے جو ان حالات کی وجہ سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

وزارت داخلہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ آئی ایس آئی اور فساد متاثرین میں کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ دہلی پولیس نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو افراد مظفر نگر سے گرفتار کئے گئے ہیں وہ فساد متاثرین سے تعلق نہیں رکھتے پھر کس بنیاد پر کانگریس اور بی جے پی اس طرح کے الزامات عائد کرنے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ؟ ۔ دونوں ہی جماعتوں کو اپنے اپنے طریقہ کار اور اپنے اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ ایک ملک کی برسر اقتدار جماعت ہے تو دوسری ملک کی اصل اپوزیشن جماعت ہے ۔ یہ دونوں ذمہ دار جماعتیں ہیں ۔ انہیں ملک اور ملک کے عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ فساد متاثرین کو مزید شک کے دائرہ میں لاتے ہوئے اپنی سیاسی دوکان چمکانے کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ لشکر اور آئی ایس آئی کے جو رابطے ہیں وہ سکیوریٹی ایجنسیوں کی نظر سے چوک نہیں سکتے اس لئے اس تعلق سے ان ایجنسیوں کوہی کام کرنے کا موقع دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اس میں مداخلت اور بے بنیاد ریمارکس و الزامات سے گریز کرنا چاہئے ۔