فساد متاثرین اور یو پی حکومت

اتر پردیش میں اکھیلیش سنگھ یادو حکومت سے نہ صرف ریاست کے بلکہ سارے ملک کے مسلمانوں نے کئی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ ہر طبقہ کو یہ امید تھی کہ اکھیلیش سنگھ چونکہ نوجوان ہیں اور انہوں نے انتخابات میں اپنی پارٹی کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اس لئے وہ عوام کی توقعات کو پورا کرنے کی اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرینگے ۔ خاص طور پر مسلمانوں نے ان سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کیونکہ مسلمانوں نے انتخابات میں ان کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہوئے اس کی حکومت کے قیام میں اہم رول ادا کیا تھا ۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ انتخابات سے قبل ملائم سنگھ یادو ‘ اکھیلیش سنگھ یادو اور ان کی پارٹی نے بھی مسلمانوں سے کئی وعدے کئے تھے اور یہ تیقن دیا تھا کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا ۔ تاہم حکومت تشکیل دئے جانے کے بعد صورتحال میں یکسر تبدیلی آگئی ۔ یو پی میں فرقہ وارانہ واقعات میں مسلسل اضافہ ہوگیا اور مسلمانوں بتدریج نشانہ بنایا جانے لگا ۔ چھوٹے موٹے واقعات کے ذریعہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جانے لگا ۔ جن مسلمانوں نے اچھی اور مثبت توقعات وابستہ کرتے ہوئے انہیں ووٹ دیا تھا انہیں پریشان کیا جانے لگا ۔ پھر مظفر نگر میں فساد برپا کردیا گیا اور یہاں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔

مسلمانوں کو پہلے تو فسادات کے ذریعہ ہلاک کیا گیا اور ان کی خواتین کی عصمتیں تار تار کی گئیں پھر اب ایسا لگتا ہے کہ ملائم سنگھ یادو نے گجرات کے چیف منسٹر نریندر مودی کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا ہے اور وہ اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے مظفر نگر فساد متاثرین کے ریلیف کیمپس کو برخواست کرچکے ہیں۔ ان ریلیف کیمپس کو زبردستی بند کردیا گیا ہے ۔ پہلے ہی ان کیمپس میں رہنے والے متاثرین سردی کی وجہ سے پریشان ہیں ۔ ان ریلیف کیمپس میں روزآنہ کی اساس پر سردی سے اموات ہو رہی ہیں ۔ معصوم بچے ‘ خواتین اور بوڑھے سردی سے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر سپریم کورٹ نے بھی سخت نوٹ لیا ہے اور پارلیمنٹ میں بھی مباحث ہوئے ہیں ۔ عدالت نے یو پی حکومت کو متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کرنے کے احکام دئے تھے اور حکومت ان احکام پر عمل کرنے کی بجائے ریلیف کیمپس کو ہی اکھاڑ پھینک چکی ہے ۔ یہ سماجوادی پارٹی حکومت کی غیر انسانی حرکت ہی کہی جاسکتی ہے ۔
مظفر نگر کے متاثرین کو فسادات کی مار سہنے کے بعد اپنے گھروں سے بھی محروم ہونا پڑا ہے ۔ ان کے گاووں میں اب بھی فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کو اپنے گھروں کو واپس ہونے سے روک رہے ہیں۔ ان مسلمانوں کو اپنے گاووں کو واپسی پر پھر حملوں کا اندیشہ ہے ۔ اکھیلیش سنگھ یادو حکومت ان مسلمانوں کو راحت پہونچانے ‘ ریلیف کیمپس میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ان سے صرف نظر کرچکی تھی ۔ ان متاثرین کو ان کے گاووں کو واپسی اختیار کرنے میں مدد کرنے اور گاووں میں سکیوریٹی کو بہتر بنانے کی بجائے انہیں ریلیف کیمپس سے زبردستی نکال باہر کرچکی ہے ۔ اب یہ متاثرین ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ یہاں انہیں موسم کی شدید مار سہنی پڑیگی ۔ پہلے ہی ریلیف کیمپس میں شدید ترین سردی کی وجہ سے اموات ہوئی ہیں اور اب تو یہ لوگ کھلے آسمان تلے آچکے ہیں اور انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آج پھر ایک دو سالہ لڑکی شاملی ضلع کے ایک کیمپ میں شدید سردی کی وجہ سے انتقال کر گئی ۔ ذرائع ابلاغ نے اس کا انکشاف کیا ہے اور حکومت اس تعلق سے ہنوز لا پرواہ ہی نظر آتی ہے ۔ ا

ن اموات کی ذمہ داری راست طور پر حکومت اتر پردیش ہی پر عائد ہوتی ہے ۔ حکومت نے ان متاثرین کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس کی وجہ سے ہی اموات پیش آ رہی ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کی پارٹی کی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف اپنے رویہ میں سپریم کورٹ کے احکام کو بھی نظر انداز کردیا ہے اور متاثرین کو راحت پہونچانے کی بجائے انہیں کھلے آسمان تلے بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے ۔ اب یہ لوگ نیا سہارا تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
ان ریلیف کیمپس میں جو اموات پیش آ رہی ہیں حکومت اترپردیش پہلے تو انہیں ہی قبول کرنے سے گریز کر رہی ہے ۔

سارا ملک اس حقیقت سے واقف ہے کہ ان کیمپس میں اموات پیش آ رہی ہیں لیکن ملائم سنگھ یادو ریلیف کیمپس میں مقیم افراد کو متاثرین ہی سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ ان متاثرین کو کانگریس اور بی جے پی کے کارکن قرار دیتے ہیں اور ان کا ادعا ہے کہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے یہ لوگ یہاں ہیں ۔ حقیقت ہے کہ ملائم سنگھ یادو سیاسی مقصد براری کیلئے متاثرین سے انصاف کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور ان سے چشم پوشی کی جا رہی ہے ۔ فساد متاثرین کو راحت پہونچانا اور انکی بازآبادکاری اترپردیش حکومت کا فرض اولین ہے ۔ لیکن حکومت اس فرض سے گریز کرتے ہوئے انہیں مزید مشکلات کا شکار کر رہی ہے ۔ یہ سب کچھ آئندہ لوک سبھا انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا جارہا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو بھی بالواسطہ ہندوتوا پالیسی اختیار کرتے جا رہے ہیںاور وہ انتخابات میں ہندووں کے ووٹ حاصل کرنے مسلمان فساد متاثرین کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ قابل مذمت رویہ ہے اور اس کا خمیازہ انہیں انتخابات میں لازماً بھگتناپڑیگا ۔