فریضۂ زکوٰۃ

 

مال و دولت کی محبت فطری و طبعی ہے، ہر انسان مال و دولت کو عزیز رکھتا ہے، اس کو جمع کرنے کی جستجو کرتا ہے اور ہمیشہ اس کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے اور بسا اوقات اس کی محبت دل پر اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ اس کے حصول و فکر میں خدا اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو تک فراموش کردیتا ہے اور نافرمانی و معصیت کا مرتکب ہوکر آخرت کی دائمی و ابدی سعادتوں سے غافل و محروم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’لوگوں کے لئے خواہشات کی محبت آراستہ کردی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں) یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانہ ہے۔
(اے حبیب!) آپ فرما دیجئے! کیا میں تمھیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لئے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اللہ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

(سورہ آل عمران۔۴۱،۵۱)
انسان عالیشان مکانات، ماڈرن و عمدہ سواریاں، کھیتیاں، باغات، کمرشیل جائیداد، فارم ہاؤس، بینک بیلنس اور سماج میں اونچے مقام و حیثیت کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کردیتا ہے، جب کہ یہ ساٹھ ستر سالہ عارضی زندگی کا حقیر ساز و سامان ہے، اس کے مقابل دائمی و ابدی زندگی آخرت میں نجات و کامرانی سے بالکل غافل ہے۔ اللہ تعالی دنیوی زندگی کی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے اعلان فرماتا ہے: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے۔ اس کی مثال بارش کی ہے، جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی جانب سے مغفرت و عظیم خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
’’(اے بندو!) تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیزی کرو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے، ان لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے‘‘۔ (سورۃ الحدید۔۰۲،۱۲)مال محبوب ہوتا ہے اور جب بندہ مؤمن اپنی عزیز و محبوب شے کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالی ہی اس کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے، حتی کہ مال و دولت جس کے حصول کے لئے لوگ اپنی ساری توانائی صرف کردیتے ہیں، دست و گریباں ہو جاتے ہیں، حتی کہ بسا اوقات قتل و خون کی نوبت آجاتی ہے، وہ اسی مال کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں صرف کردیتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ اللہ تعالی قرآن مجید کے آغاز میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’قرآن مجید متقین کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے، وہ وہ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے رزق ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۲،۳)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے پر صحابہ کرام اور تا قیامت امت کو ترغیب دی، بلکہ عملی طورپر بھی بہترین و ناقابل یقین نمونہ پیش فرمایا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کچھ مانگا، آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا‘‘ (بخاری، کتاب المناقب) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بالخصوص رمضان المبارک میں آپﷺ کی سخاوت کا حال بیان کرتے ہوئے آپ کو چلنے والی ہوا سے زیادہ سخی قرار دیتے (بخاری باب کیف کان بدء الوحی) ایک مرتبہ ایک شخص کو آپﷺ نے دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا ریوڑ عنایت فرمایا۔ وہ اپنی قوم میں جاکر کہنے لگا کہ اسلام لے آؤ، کیونکہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ فقر کی پرواہ نہیں کرتے (مسلم) ایک مرتبہ جب آپﷺ کے پاس بحرین سے ستر ہزار درہم کی خطیر رقم آئی تو آپﷺ نے اس کو مسجد میں چٹائی پر بکھیر دیا اور پھر جو سامنے آیا اسے دیتے گئے، یہاں تک کہ وہ رقم تقسیم فرمادی۔
(ابن الجوزی۲۔۲۴۴)
آپﷺ کی دریا دلی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اگر اپنے پاس موجود نہ ہوتا تو آپﷺ قرض لے کر سائل کو مرحمت فرماتے (قاضی عیاض، الشفائ، صفحہ۰۵) فرط سخاوت سے بقول حضرت انسؓ آپ کے پاس کوئی چیز ذخیرہ نہیں رہتی تھی (ابن الجوزی، صفحہ۲۴۴) ایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت بلال کے پاس کچھ کھجوریں جمع دیکھیں تو پوچھا کہ ’’اے بلال! یہ کیا ہے؟‘‘۔ انھوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! کچھ ذخیرہ کر رہا ہوں، تاکہ کسی وقت کام آسکے‘‘۔ فرمایا ’’مجھے اس بات کا خوف نہیں کہ یہ جہنم کا دہکایا ہوا ٹکڑا بھی ہوسکتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’اے بلال! خرچ کر اور تنگی کا خوف نہ کر‘‘۔ (ابن الجوزی۲۔۲۴۴)

بعض لوگ شادی بیاہ کے موقع پر بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کے کھانے کا بہترین انتظام کرتے ہیں اور اس پر لاکھوں روپئے خرچ کردیتے ہیں۔ چھلہ، چھٹی، عقیقہ، سالگرہ اور دیگر موقعوں پر پوری دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن جب زکوۃ ادا کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو نہایت بخیل ہوجاتے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے دس بہانے اور حیلے ڈھونڈتے ہیں۔ بعض حضرات انسانی ہمدردی میں اس قدر آگے آتے ہیں کہ کار خیر، مسجد کی تعمیر، طلبہ کی کفالت، غرباء و مساکین اور عزیز و اقارب کی امداد میں دل کھول کر حصہ لیتے اور جب زکوۃ کی نوبت آتی ہے تو دل تنگ ہو جاتا ہے اور وہ زکوۃ کی واجب شدہ کامل رقم ادا نہیں کرتے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ زکوۃ کی ادائیگی نفس پر نہایت گراں اور شاق ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے، مگر اس کی ادائیگی کسی پہاڑ سے کم نہیں ہوتی اور جب بندہ نفس کے دھوکہ سے بچکر کامل طورپر زکوۃ ادا کرتا ہے تو وہ اجر عظیم کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اس کا مال پاک و صاف ہو جاتا ہے، اس میں برکت ہوتی ہے، آفات و مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے، اس لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم زکوۃ دے کر اپنے اموال کو مضبوط قلعوں میں محفوظ کرلو‘‘ (ابوداؤد) حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے، جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا‘‘۔ (ابن خزیمہ، حاکم)
حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ’’تمہارے اسلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوۃ ادا کیا کرو‘‘۔ (طبرانی)
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ (سورۃ البقرہ۔۳۴)
’’تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، یقیناً تم پر رحم کیا جائے گا‘‘ (سورۃ النور۔۶۵)

’’انھیں صرف یہی حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور حق کی طرف یکسو ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے‘‘۔ (سورۃ البینہ۔۵)
جو لوگ پابندی سے کامل زکوۃ ادا کرتے ہیں، وہ اللہ تعالی کی رحمت کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا، جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہی لوگ ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۶۵۱)اور جو لوگ زکوۃ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، وہی مال و دولت اور سونا چاندی قیامت کے دن ان کیلئے وبال جان بن جائیں گے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور جو لوگ اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال (کی زکوۃ دینے) میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ بخالت ان کے لئے مفید ہے، بلکہ (وہ یقین کرلیں کہ) وہ ان کیلئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے ساتھ انھوں نے بخل کیا ہے، اس کا طوق انھیں پہنایا جائے گا‘‘۔ (آل عمران۔۰۸۱)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (زکوۃ نہیں دیتے) تو (اے نبی کریم!) آپ ان کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے، جس دن کہ وہ (سونا چاندی) دوزخ کی آگ میں گرم کئے جائیں گے، پھر ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا کہ) یہ وہی (سونا چاندی) ہے جس کو تم نے جمع کیا تھا، اس کا مزہ چکھو‘‘۔ (سورۃ التوبہ۔۴۳،۵۳)
زکوۃ ادا کرنا نفس پر نہایت شاق ہے اور زکوۃ کی رقم اگرچہ وہ قلیل ہو، لاکھوں روپئے نفل خیرات و صدقات سے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اور نفس کشی میں نہایت مؤثر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’شریعت کے کسی حکم کو بجالانا نفس پر ہزار ریاضتوں سے زیادہ مؤثر ہے‘‘۔ لہذا زکوۃ کی ادائیگی فلاح و کامرانی کا باعث ہے اور اس سے کوتاہی ندامت و خسران کا موجب ہے۔