فرقہ پرست اور سیکولرزم

رُخوں کے چاند، بدن کے ہیں آفتاب چلو
سجی ہے آج کوئی محفلِ شباب چلو
فرقہ پرست اور سیکولرزم
ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ان دنوں ہر سیکولر پارٹی اپنا محاذ بنانے کی بات کررہی ہے۔ لکھنؤ میں سماج وادی پارٹی کے قائدین سیکولر فرنٹ کی تیاری کررہے ہیں تو اس پارٹی کے قومی صدر اکھیلیش یادو نے فرقہ پرستوں سے نمٹنے کیلئے اپنی پارٹی میں ہر طبقہ کے لیڈرکو شامل کرنے کی مہم شروع کی ہے جبکہ ملائم سنگھ یادو نے شیوپال یادو کو لیکر لوک دل کے تحت ایک سیکولر محاذ بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ بہار میں ایک سیکولر اتحاد کو توڑنے میں کامیاب مرکز کی بی جے پی حکومت دیگر ریاستوں میں سیکولر اتحاد کی جانب بڑھتے قدموں کو روکنے کی ہر طرح کی کوشش کرے گی۔ اس وقت بی جے پی کی سیاسی طاقت کے سامنے سیکولراتحاد کی طاقت کو مضبوط بنانے کیلئے ایمانداری اور دیانتداری دونوں کی سخت ضرورت ہے۔ بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار نے عین بیچ راہ میں لالو پرساد یادو کا ساتھ چھوڑ دیا اور بی جے پی کی گود میں دوبارہ بیٹھ گئے۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی نے بھی اپنا ایک سیکولر کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں خاص کر کرناٹک اور تلنگانہ میں سیکور پارٹیوں کا غلبہ ہے۔ ٹاملناڈو اور کیرالا میں بھی بی جے پی کا کوئی خاص مقام نہیں ہے۔ چیف منسٹر کیرالا پنیرائی وجین نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس سنگھ پریوار کو ملک کی سیکولر طاقتوں کیلئے خطرہ قراردیا۔ ان کا ماننا ہیکہ بی جے پی اور آر ایس ایس مل کر اس ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات تو نوٹ کی جاچکی ہے کہ وفاقیت کو کمزور کرنے کی غرض سے ہی منصوبہ بندی کمیشن کو برخاست کرکے ’’نیتی آیوگ‘‘ قائم کیا گیا۔ اب گڈس اینڈ سرویس ٹیکس کے ذریعہ ریاستوں کی اقتصادی و مالی حالت کو کمزور کردیا جارہا ہے۔ ایسے میں علاقائی سیکولر پارٹیوں کو اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ اگر تمام علاقائی سیکولر پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہوجاتی ہیں تو اس سے ایک مضبوط محاذ قائم ہوگا اور سیکولر عوام کے سامنے بی جے پی آر ایس ایس کا متبادل بھی کھڑا ہوگا۔ ٹاملناڈو کی سیاست میں آنے والا انقلاب بھی فرقہ پرستوں کی نیند حرام کرسکتا ہے کیونکہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے فلم اسٹار کمل ہاسن سے ملاقات کرکے کرپشن اور فرقہ پرستی کے خلاف سرگرم ہوجانے کیلئے سیاسی میدان میں اترنے کی ترغیب دی ہے۔ اگر ملک کے سیکولر سوچ کے حامل طاقتیں مجتمع ہوجائیں تو بلاشبہ فرقہ پرستوں کو کمزور بنایا جاسکتا ہے۔ نائب صدرکانگریس راہول گاندھی نے بیرون ہند اپنی پارٹی کی ساکھ کو خاص کر غیرمقیم ہندوستانیوں میں کانگریس کے سیکولر کردار کو اجاگر کرنے کی مہم شروع کی ہے جو ایک نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔ واضح رہیکہ جب سے مرکز میں ایک خاص فکروسوچ کی حامل پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں راہول گاندھی کا یہ خیال درست ہیکہ ہندوستان کسی زمین کے ٹکڑکے کا نام نہیں بلکہ ہندوستان ایک خیال ہے ایک نظریہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ، مختلف بولی بولنے والے امن و بھائی چارے کے ساتھ آباد ہیں۔ اس کی حفاظت کرنا سیکولر عوام کی ذمہ داری ہے۔ ان دنوں ملک میں فرقہ پرستی اساس پر تقسیم کی سیاست کو ہوا دی جارہی ہے اور سنگھ پریوار کی اس سیاست اور سوچ کو بدلنے کیلئے سیکولر اتحاد کا ہونا ضروری ہے۔ کرناٹک میں صحافی گوری لنکیش کے قتل کے بعد یا اس سے پہلے اگست 2015ء میں ملیش اپا کلبرگی کے قتل سے لیکر آج تک کے حالات سے ظاہر ہوتا ہیکہ ہندوستان میں سیکولرزم اور جمہوریت کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں اکثریت و اقلیت کے نظریہ کو ہوا دے کر ہی فرقہ پرستی کی جڑیں مضبوط کی گئی ہیں اور یہ سیکولرزم کے یکسر مغائر ہے۔ اس طرح کی سوچ کو ختم کرکے ہی سیکولرزم کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا سنگھ پریوار کی جانب سے جو خطرات اور اندیشہ پیدا کردیئے گئے ہیں، ان کے خلاف متحد ہونا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔ فرقہ پرستی کے خطرات کا سامنا کرنے اور ابھرتے چیلنجس سے نمٹنے کیلئے تمام سیکولر عوام کو متحد ہونا ضروری ہے۔
شمالی کوریا کی بڑھتی دھمکیاں
نیوکلیئر ہتھیاروں اور تباہی مچانے والے اسلحہ کے حامل ملکوں کو محتاط رہنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے مگر ان دنوں شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں نے عالمی سطح پر سلامتی کی صورتحال کو نازک بنادیا ہے۔ امریکہ جیسے طاقتور ملکوں کی یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے ہی بعض ملکوں کو اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ پر توجہ دینی پڑی ہے۔ شمالی کوریا نے امریکہ کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ شمالی کوریا پر عائد کردہ پابندیاں ہی اس ملک کو مزید مشتعل کرنے کا باعث بنی ہیں۔ اس بنیاد پر شمالی کوریا نے انتباہ دیا کہ پابندیاں ان کی راہ میںحائل نہیں ہوں گی۔ ہم پر دباؤ بڑھایا گیا تو نیوکلیئر پروگرام میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہوئے بعض ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے ملکوں کے مقتدراعلیٰ پر کاری ضرب پڑی ہے۔ شمالی کوریا پر بھی اقوام متحدہ کی پابندیوں کا مقصد اس کو پابند کرنا ہے جبکہ شمالی کوریا کی قیادت اس طرح کی پابندیوں کو قبول کرنے سے انکارکرتے ہوئے اس کو عوام، نظام اور حکومت کو ختم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس وقت دنیا کو ایک مکمل امن کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد کیلئے امن مذاکرات کی بحالی ہی ضروری سمجھی جائے گی۔ شمال کوریا کے مسئلہ کو اگر آنکھ دکھا کر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر امن کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اس ملک کا مسئلہ سفارتکاری کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی ملک کے خلاف فوجی کارروائی کے بارے میں سوچنا خاص کر شمالی کوریا کے خلاف فوجی اقدامات نامناسب سمجھے جائیں گے اور اس طرح کی کارروائی ایک غلط فیصلہ ہوگی۔