فرزند قریش حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ

خان آصف مرسلہ : عبید بن عثمان العمودی
(۱۵۰ تا ۲۰۴ ہجری )

امام شافعیؒ کا خاندانی نام محمد اور والد کا نام ادریس بن عباس تھا ۔ شافع ، آپ کے پردادا تھے اس لئے شافعی کہلاتے ہیں۔ شافع ، وہ شخص ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر قبیلہ بنوشہام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا ۔ جب کفاران قریش کو شکستِ فاش ہوئی تو شافع قیدی بنالیے گئے بعد میں فدیہ دے کر خود کو آزاد کرالیا اور پھر مسلمان ہوگئے ۔ خود حضرت امام شافعیؒ کا قول ہے ’’میری پیدائش ، غزہ میں ہوئی ‘‘۔ غزہ شام کا علاقہ ہے ۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت عبداﷲ ایک مثالی خاتون تھیں ۔ ان کے عزم و ہمت کولفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ۔ ناداری کی حالت میں کئی سال بسر کرنا پھر بھی شوہر کی جاں نثار رہنا، یہ اس عظیم شریک حیات کی زندگی کا ایک ورق ہے جس کی آغوشِ محبت میں امام شافعیؒ پرورش پارہے تھے ۔ عین عالمِ شباب میں بیوگی کا لباس پہن کر ثابت قدم رہنا اور اولاد کی خاطر ذاتی مسرتوں کو قربان کردینا اس کی کتاب زیست کا دوسرا زرین ورق ہے۔ فاقہ کشی اور بے چارگی کا تسلسل ، انسان سے اس کے ہوش و حواس چھین لیتا ہے ۔ مگر فاطمہ بنت عبداﷲ ، مصائب کی یلغار میں بھی اپنے فرزند کی طرف سے غافل نہیں ہوئیں۔ جب امام شافعیؒ تین سال کے ہوئے تو ایک غیور ماں نے بیٹے کو پہلا سبق دیا ۔ ’’خدا ایک ہے اور وہ سب کا کارساز ہے ۔ کوئی شے اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ، دنیا کا ہر شاہ و گدا ، خدا کا محتاج ہے ۔ انسان کیلئے اس سے بڑی کوئی ذلت نہیں کہ وہ خدا کو چھوڑکر اپنے ہم جنس کے آگے ہاتھ پھیلائے‘‘۔
پھر فاطمہ بنت عبداﷲ نے یہ سبق اتنی بار دہرایا کہ امامؒ نے اپنی آنکھوں سے غیرت کو مجسم ہوتے دیکھا ۔ روز و شب یہی ایک لفظ آپ کے تعاقب میں رہتا ۔ جہاں بھی جاتے اسی ایک لفظ کی بازگشت سنائی دیتی ۔ ’’غیرت‘‘ کی تکرار صرف اس لئے تھی کہ امامؒ کے معصوم ذہن کو احساس کمتری کا آزار متاثر نہ کرسکے۔
جب فرزند قریش نے اپنی زندگی کے چار سال مکمل کرلئے تو مادرِ گرامی نے دوسرا سبق دیا۔ ’’محمد ! علم حاصل کرو ۔ علم کے بغیر انسان اور حیوان میں زیادہ فرق باقی نہیں رہتا‘‘۔
ایک عرصے کے بعد والدہ محترمہ نے حضرت امام شافعیؒ سے فرمایا ’’فرزند ! انسانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ آندھیوں کے رخ پر رکھا ہوا چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے ۔ یہ زبان اپنے خدا کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہے کہ اس نے تمہیں میری زندگی میں حفظِ قرآن کی لازوال نعمت سے سرفراز کیا ۔ اب تم اپنا آخری سبق غور سے سنو ۔ ایک ایک لفظ ذہن نشین کرلو کہ اس کے بغیر دنیا اور آخرت میں نجات ممکن نہیں۔ اے ادریس کے بیٹے ! تمہیں محمد مصطفی ﷺ سے دوہری نسبت ہے ۔ تمہاری نسبی رشتہ اسی محترم خاندان سے ہے جس کا تعلق رسالت مآبؐ سے ہے ۔ دوسرا رشتہ اس رشتے سے بھی معتبر ہے کہ تم خدا کے آخری پیغمبرؐ کی اُمت میں شامل ہو۔ غلاموں پر فرض ہے کہ وہ آقا کی سنت کو زندہ کریں‘‘۔ والدہ کی نصیحت اس قدر اثر انگیز تھی کہ امامؒ کے دل میں عشق کی لے پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی ۔ پھر امامؒ کے دل و دماغ کا یہ حال ہوگیا کہ ہمہ وقت حدیث رسولؐ کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگے ۔ ابھی آپ کی عمر صرف تیرہ سال تھی کہ حضرت مسلم بن خالد زنجی نے فرمایا ۔ ’’محمد ! اب تم فتویٰ دے سکتے ہو ۔ یہ ذمہ داری تمہیں زیب دیتی ہے ‘‘۔
امام ؒ اس کم سنی میں مسند فقہ پر جلوہ افروز ہوئے کہ لوگو ںکو یقین نہیں آتا تھا ۔ پھر آپ نے بعض پیچیدہ مسائل میں اس قدر ذہانت سے فتوے دیئے کہ اہل علم سوچتے رہی رہ گئے ۔ یہ عمر ! یہ حافظہ ! یہ ادراک! یہ رسائی ! یہ ذوقِ شعر! فصاحت و بلاغت ! بلاشبہ امامؒ ان صفات میں اپنی مثال آپ تھے ۔
قریش کے مفلوک الحال فرزند نے ہوش و خرد کی بلند ترین چوٹی کو سر کرلیا تھا ۔ مگر ابھی اس کا دل مطمئن نہیں تھا ۔ امام مالکؒ کے فضل و کمال کے تذکرے اسے اکثر بے قرار رکھتے تھے ۔ نصف شب کے سناٹے میں شہر رسولؐ سے آنے والی ہوائیں اس سے سرگوشیاں کرتی تھیں : ’’عنقریب لوگ علم کی طلب میں سفر کرکے اونٹوں کے جگر پگھلادیں گے مگر پھر بھی انھیں عالم مدینہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ملے گا‘‘۔ (امام شافعیؒ )
پھر وہی بچہ تیرہ سال کی عمر میں ، محرابِ حرم کے نیچے کھڑا ہوا لوگوں سے کہہ رہا تھا ۔ ’’اے شام والو ! اے عراق والو ! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو ،پوچھ لو ‘‘۔ بڑی سحرانگیز آواز تھی ۔ اہلِ علم کے چلتے ہوئے قافلے رک گئے۔ دیکھنے والوں نے اس بچے کی طرف بہت غور سے دیکھا ۔ کیا عمر تھی اور کیا دعویٰ تھا ؟ لوگوں کو کم سنی کے اس دعوے پر یقین نہیں آیا ۔ جن کے بازو علم کے سمندر میں شناوری کرتے کرتے شل ہوگئے تھے اور جن کے پاؤں تحقیق کے کوچے میں چلتے چلتے آبلوں سے بھر گئے تھے ، وہ اہل کمال یہ آواز سن کر ٹھہرگئے ۔ پھر اس بچے پر سوالات کی بارش کردی گئی مگر وہ بڑے اعتماد سے جواب دیتا رہا۔ عقل سربہ گریباں تھی اور بڑے بڑے جہاندیدہ ، آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔ ’’کیا یہ بھی ممکن ہے؟ ‘‘ جو صاف باطن تھے وہ بچے کو درازیٔ عمر کی دعائیں دے کر چلے گئے تھے ۔ مگر جن کے سینوں میں حسد کا غبار تھا ان کے دل پہلے سے زیادہ کثیف ہوگئے تھے ۔ وسوسوں نے ان کے دماغوں کو گھیرلیا تھا اور اندیشے مسلسل پریشان کررہے تھے ۔ ان کی نام نہاد ’’امامتوں‘‘ کا مستقبل اس ذہین بچے کے علمی کمالات کی زد میں تھا ، اس لیے وہ اس کے نسب نامے پر اعتراض کرنے لگے ۔ جب وہ لفظوں کی کرشمہ سازیوں اور بات کی گہرائیوں کا جواب نہ دے سکے تو پھر اسے غلام زادہ کہہ کر پکارنے لگے ۔ یہ جذبات کی تسکین کا کیسا اندازہ تھا کہ لوگ تہمتیں تراشتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔ علم کے میدان میں شکست کھائی تو نسلی غرور کا سہارا لیا ۔ مگر وہ بچہ ان تمام باتوں سے بے نیاز تھا ۔ لوگوں کی تنقید بیجا نے اسے مزید استقامت بخشی ۔ یہ تو ہجوم کو دیکھ کر ڈرجانے کی عمر ہوتی ہے ۔ اس عمر میں تو بچوں کی زبان سے الفاظ بھی ادا نہیں ہوتے لیکن اس کے اعتماد میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔ آواز پہلے سے زیادہ دل نشین اور بلند ہوگئی تھی ۔ وہ اسی مسحور کن لہجے میں بول رہا تھا ’’اے شام والو ! اے عراق والو ! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو ، پوچھ لو ‘‘۔
پھر ایک دن اس بچے کی تقریر سننے کے لئے فقیہوں اور محدثوں کے قلندر حضرت سفیان ثوریؒ بھی تشریف لائے ۔ اس مردِ آزاد کو آتا دیکھ کر ہجوم میں ہلچل سی مچ گئی ۔ لوگوں نے امامؒ کے لئے راستہ بنادیا ۔ حضرت سفیان ثوریؒ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ اس جگہ پہنچ کر ٹھہرگئے جہاں قریش کا وہ عظیم بچہ علم کے منبر پر کھڑا ہوا تقریر کررہا تھا ۔ حاضرین نے اپنی نشستیں چھوڑدیں کہ امامؒ بیٹھ جائیں مگر حضرت سفیانؒ علم کے احترام میں کھڑے رہے ۔ فرزند قریش کی زبان سے فصاحت و بلاغت کا آبشار جاری تھا ۔ لہجے کے گداز سے لوگوں کے دل پگھلے جاتے تھے ۔ آخر امام سفیان ثوریؒ نے بے قرار ہوکر فرمایا ’’خدا کی قسم ! اگر انسانی عقل کا وزن کیا جائے تو نصف دنیا کی عقل پر اس بچے کی عقل بھاری ہوگی‘‘۔ مردِ قلندر نے فرزند قریش کی فضیلت پر اس طرح گواہی دی کہ لوگوں کی گردنیں خم ہوگئیں۔
یہ نابغۂ روزگار بچہ حضرت امام شافعیؒ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ؟
امام شافعیؒ غائبانہ طورپر تو بہت پہلے ہی امام مالکؒ سے متاثر ہوچکے تھے ۔ مگر جب ’’موطا‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تو پھر مکمل طورپر امامِ مدینہ کی شخصیت کے دائرے میں محصور ہوگئے ۔ اب ایک ہی جذبہ سینۂ سوزاں میں باقی رہ گیا تھا کہ کس طرح مالک بن انسؓ کے حضور پہنچ کر دماغ و روح کی تشنگی کو سیراب کریں۔
امام شافعیؒ نے اپنے استاد حضرت سفیان عینیہؒ سے امام مالکؒ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’مالک بن انسؓ کے سامنے ہماری حیثیت ہی کیا ہے ؟ ہم تو ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں‘‘۔ پھر امام شافعیؒ نے اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود دربار امام مالکؒ میں حاضر ہونے کافیصلہ کرلیا ۔
زندگی نئے انقلاب سے دوچار ہونے والی تھی کہ امام شافعیؒ نے ایک غیبی آواز سنی ۔ کوئی آپ سے کہہ رہا تھا ’’محمد! دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہنشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو رسمِ زمانہ کے مطابق نذر پیش کرتا ہے ۔ مالکؒ بھی اقلیم حدیث و فقہ کے تاجدار ہیں۔ تم ان کے حضور کیا نذر پیش کروگے؟ ‘‘ آواز سن کر امام شافعیؒ چونک پڑے ۔ آپ کو اپنی تہی دستی کا احساس ہوا، خالی دامن کی طرف دیکھا پھر اُداس ہوگئے ۔ دربارِ مالکؒ میں نذر پیش کرنے کیلئے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔ پھر کئی راتیں جاگتے ہوئے گزرگئیں۔ امام مالکؒ کے در پر گدائی کئے بغیر علم حدیث کی گہرائیوں کو سمجھنا ممکن نہیں تھا ۔ امام شافعیؒ مسلسل کئی دن تک اس صورتحال پر غور کرتے رہے ۔ پھر امامؒ کے ذہن نے عجیب راہ نکالی ۔ دوبارہ جب وہ غیبی آواز سنائی دی تو امامؒ نے فرمایا: ’’ اگر وہ شہریارِ علم مجھ سے سوال کرے گا کہ شافعیؒ ! تو ہماری نذر کو کیا لایا ، تو میں عرض کروں گا ۔ شاہا ! میں تیری بارگاہ میں تیری ہی روایات لے کر حاضر ہوا ہوں‘‘۔
آپ لرزتے قدموں سے روضۂ رسولؐ کی طرف بڑھے۔ امام شافعیؒ جس کے اقوالِ قدسیہ کا علم حاصل کرنا چاہتے تھے ، وہی ذاتِ گرامی آپ کی نظروں کے سامنے محو خواب تھی ۔ امام شافعیؒ اس طرح روضہ رسولؐ کی جانب بڑھ رہے تھے جیسے کوئی لاغر و نحیف انسان بستر سے اُٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہو ۔ جلالِ رسالتؐ سے امام شافعیؒ کے جسم کی ساری توانائی سلب ہوچکی تھی ۔ آپ نے زیرلب اپنے خدا کو پکارا ۔ہمت و استقامت کی دعا مانگی ۔ پھر آہستہ آہستہ سرور کونینؐ کے پائے اقدس کی طرف بڑھے ۔ جذبہ، امام ؒ کا دستگیر تھا اور شوق ، مشکل کشا ۔ چند لمحوں کافاصلہ صدیوں میں تبدیل ہوتا محسوس ہورہا تھا ۔ امامؒ نے اپنی غلامی کا حوالہ پیش کیا اور اس کے ساتھ ہی نہایت پرسوز آواز میں رحمتہ اللعالمینؐ کے حضور اسلام عقیدت پیش کیا۔ یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور شدید عالمِ اضطراب میں دعا کے لئے دونوں ہاتھ بلند ہوگئے ۔
باقی آئندہ
’’میں کہ تیرا نقشِ کف پا ، میں کہ تیرے راستے کا غبار ، میں کہ تیری بارگاہِ کرم کاگدائے اذلی‘‘ ۔ امام شہہ عرب و عجمؐ کے دربارِ ابدی میں گریہ و زاری کررہے تھے ۔ ’’اگر تمام کائنات مل کر بھی مدح و ثنا کا اہتمام کرے تو حشر تک تیری سیرت کا بیان ختم نہ ہو ۔ زبانیں عاجز رہ جائیں اور لفظوں کا ذخیرہ اپنی تنگ دامانی پر شرمسار ہوجائے۔ اے مولائے کلؐ ، اے خْتم الرسلؐ ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرما کہ ہم تو حضورِ شاہ ، حال دل کہنے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتے ۔ اے صحراؤں پر برسنے والے ابرِ کرم ! شافعیؒ کے رہگزار قلب پر بھی آگہی کی چند بوندیں ، عشق جاں سوز کے چند قطرے‘‘ ۔ امامؒ درود و سلام کے بعد دیر تک دعا کرتے رہے ۔ پھر جب آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوگیاتو اس مجلس نور کی طرف بڑھے جہاں امام مالکؒ تشنگانِ علم کو حدیث رسولؐ کا درس دے رہے تھے ۔
’’تمہارا نام کیا ہے ؟ ‘‘ امام مالکؒ نے علم کی طلب میں سفر کرنے والے مفلس نوجان پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’محمد بن ادریس‘‘ ۔ امام شافعیؒ نے نہایت مودبانہ لہجے میںمختصر جواب دیا ۔
امام مالکؒ چند لمحوں تک آپ کو گہری نظروں سے دیکھتے رہے پھر محبت بھرے انداز میں فرمایا اﷲ سے ڈرو اور گناہوں سے بچتے رہو۔ تم ایک دن ضرور انسانے کے بلن درجے تک پہنچو گے ‘‘ ۔ یہ ایک سند تھی جو امام مالکؒ کی طرف سے فرزند قریش کو عطا کی گئی تھی ۔ امام مدینہ کی زبان سے تحسین آمیز کلمات سن کر امام شافعیؒ آبدیدہ ہوگئے اور اظہارعقیدت کے لئے سر جھکالیا ۔
امام مالکؒ جب بھی کوئی حدیث سناتے ، میں تنکے کو لعابِ دہن سے تر کرکے اپنی ہتھیلی پر لکھ لیتا ۔ میرا خیال تھا کہ سب لوگ سماعت حدیث میں کھوئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی میرے اس عمل سے باخبر نہیں ہے مگر حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ امام مالکؒ اپنی مجلس میں شریک ہونے والے افراد کی ایک ایک حرکت پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ چنانچہ امام مدینہؒ کی نظر سے میری حرکت بھی پوشیدہ نہ رہ سکی ۔ میں بہت دیر تک بے خبری کی کیفیت میں مالک بن انسؓ کی بیان کردہ احادیث اپنے ہاتھ پر لکھتا رہا ۔ آخر مجلس ختم ہوگئی لیکن اپنی محویت کے باعث مجھے کچھ پتہ ہی نہیں چل سکا ۔ یہاں تک کہ میں نے امام مالکؒ کی بارعب آواز سنی ، وہ مجھے اپنے قریب آنے کا حکم دے رہے تھے ۔ میں نے گھبراکر چاروں طرف دیکھا تمام لوگ رخصت ہوچکے تھے اب میں بارگاہِ مالکؓ میں تنہا تھا۔ بمشکل تمام اپنی جگہ سے اُٹھا اور لرزتے قدموں سے امام مالکؒ کے سامنے پہنچ کر کھڑا ہوگیا ۔
میں امام مالکؒ کی بات سن کر لرز گیا اور مجھے محسوس ہونے لگا جیسے اس مجلس درس میں یہ میرا آخری دن ہے ۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ۔ جب میں نگاہِ امامؒ میں بے ادب ٹھہرا تھا تو پھر دنیا میں کون میرے ادب پر گواہی دیتا ؟ میں نے بڑی مشکل سے اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سنبھالا اور کانپتی ہوئی آواز میں عرض کیا ’’امامؒ میں دنیا کی اس عظیم ادب گاہ میں ادب ہی سیکھنے کیلئے حاضر ہوا ہوں ، پھر بھی آپ میری بے ادبی کی نشان دہی فرمائیں‘‘۔ میرے اس جواب سے امام مالکؒ کے چہرے پر نظر آنے والی ناگواری کے تاثرات کسی حد تک زائل ہوچکے تھے لیکن ابھی لہجے کی سختی باقی تھی تمہاری بے ادبی یہ ہے کہ تم سماعت حدیث کے آداب سے واقف نہیں ہو ‘‘۔ امام مالکؒ نے فرمایا ۔ ’’جب میں رسول کریم ﷺ کے کلمات سنارہا تھا اور ساری مجلس ساکت و جامد ہوگئی تھی اس وقت تم اپنے ہاتھ پر کسی چیز سے کھیل رہے تھے ‘‘۔
اب میں صورتحال کو سمجھ چکا تھا ۔ بے شک یہ عمل آدابِ مجلس کے خلاف تھا مگر امام کو میری مجبوریوں کی خبر نہیں تھی ۔ میں نے بصد احترام اپنے اس فعل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے پاس کاغذ نہیں تھا اس لئے آپ جو کچھ بیان فرمارہے تھے اسے اپنے ہاتھ پر لکھتا جارہا تھا ‘‘۔ امام مالکؒ کو میرے جواب پر شدید حیرت ہوئی ، فوراً میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچ کر دیکھا اور پھر فرمایا ’’تمہارے ہاتھ پر تو کچھ بھی نہیں لکھا ہے ! ‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں آپ کی بیان کردہ احادیث کو اپنے لعاب دہن سے ایک تنکے کے ذریعے تحریر کررہا تھا ، لعاب کا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس لئے ہاتھ پر عکس باقی نہیں رہا ۔ ویسے بھی مجھے تمام احادیث زبانی یاد ہوچکی ہیں ‘‘۔ میری بات سن کر امام مالکؒ کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا فرمانے لگے ’’سب نہیں ، ایک ہی حدیث سنادو‘‘۔ میں نے فوراً کہا ۔ مجھ سے مالکؒ نے نافع اور ابن عمرؒ کے واسطے سے اس قبر کے مکیں صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم یہ حدیث روایت کی ہے ‘‘ اور پھر امام مالکؒ ہی کی طرح میں نے بھی ہاتھ پھیلاکر روضۂ رسول کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد وہ پچیس احادیث سنادیں جو امامؒ نے آغاز درس سے مجلس کے خاتمے تک بیان کی تھیں‘‘۔
یہ امام شافعی کی بے مثال قوتَ حافظہ کا ایک غیرمعمولی مظاہرہ تھاجس سے امام مالکؒ یہاں تک متاثر ہوئے کہ آپ نے بے اختیار فرمایا ’’فرزند قریش ! خدا تمہاری عمر دراز کرے‘‘۔
دوسرے دن امام شافعیؒ وقت سے پہلے ہی مسجد نبویؐ پہنچ گئے ۔ آپ نے نماز ظہر ادا کی اور مجلس حدیث میں سب سے آگے اس طرح بیٹھے کہ امام مدینہ کے روبرو آپ کی نشست تھی ، درس شروع ہونے سے پہلے امام مالکؒ نے محبت آمیز نظروں سے آپ کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا ’’محمد! تم قرأت کرنے والے کو اپنے ساتھ نہیں لائے ؟ ‘‘
’’امام ! اس دیار میں آپ کے سوا میرا کوئی شناسا نہیں ہے ، میں کس کے سامنے عرض حال کرتا ؟ آپ حکم دیں گے تو خود ہی قرات کروں گا‘‘۔ امام شافعیؒ کو ایک بار پھر اپنی کم مائیگی کااحساس ہوا تھا اس لئے آپ کے لہجے میں سوزشِ دل نمایاں تھی ۔
’’تمہارے پاس کتاب بھی نہیں ہے ، پھر کس طرح قرات کروگے ؟ ‘‘ امام مالکؒ کا اشارہ ’’موطا‘‘ کی طرف تھا ۔
’’جب تک امامؒ کی چشم کرم میری جانب نگراں ہے اس وقت تک مجھے کتاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ‘‘۔
یہ ایک ایسے طالب علم کا دعویٰ تھا جس کی عمر چودہ سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ مجلسِ درس میں ہلچل مچ گئی ، بڑے بڑے پختہ کار لوگ امام شافعیؒ کو تعجب سے دیکھنے لگے خود امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک پر بھی حیرت کے آثار صاف نظر آرہے تھے ۔ ’’مکے سے روانگی کے وقت ’’موطا‘‘ ہی میرا زادِ سفر تھی ، میں نے سوچا تھا کہ جب علم کاشہنشاہ مجھ سے سوال کرے گا کہ شافعی! تو ہماری نذر کو کیا لایا ہے تو میں امام کی بارگاہ میں امامؒ ہی کی روایات پیش کردوں گا ‘‘۔ مجلس کے بام و در ساکت تھے اور تمام اہل مجلس کی نگاہیں فرزند قریش کی چہر ے پر جمی ہوئی تھیں۔ امام شافعیؒ نے امام مدینہ سے اجازت طلب کی اور پھر لوگوں کی سماعتیں ایک نئی آواز سے آشنا ہوئیں۔ امام شافعیؒ پرسوز آواز میں ’’موطا ‘‘ کی قرات کررہے تھے ، سرورِ کونین کے ارشاداتِ گرامی اور ایک جاں نثارِ رسالت کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز ، اہل دل کو نبض کائنات رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔ اس منظر جانفرا کی کیفیت کو خود حضرت امام شافعیؒ نے اپنے سفر نامے میں اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔
’’میں قرأت کے دوران حضرت امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک کی طرف ایک نظر دیکھنے کی کوشش کرتا اور پھر میرے دل پر امامِ مدینہ کی ہیبت چھاجاتی ۔ میں گھبراکر سوچنے لگتا کہ قرأت حتم کردوں ۔ اس خیال کے ساتھ ہی میری آواز بہت آہستہ ہوجاتی ۔ امامِ مالکؒ فوراً آنکھیں کھول دیتے اور میری قرأت پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ۔ فرزند ! اور … فرزند اور ۔ قرأت کا یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا ۔ اہل مجلس کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ کب دن تمام ہو اور کب سورج اُفق غرب میں ڈوب گیا۔ سب لوگ اس وقت چونکے جب مدینے کی فضاؤں میں موذن کی آواز گونجی …