فاختہ کا انعام

انور ایک محنتی اور ایماندار لڑکا تھا۔ ایک دن وہ اپنے کام پر جارہا تھا۔ اس کے دل میں بہت سی خواہشات تھیں مگر وہ ان کو پورا نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ بہت غریب تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے پاس بہت سی دولت ہو اور وہ بھی دوسرے غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرے۔ وہ ان ہی سوچوں میں گم بہت آگے نکل گیا لیکن اسے جلد ہی احساس ہوگیا لہذا وہ واپس جانے ہی لگا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک فاختہ اپنے بچوں کو اڑنا سکھا رہی ہے۔
ان بچوں میں سے ایک بچہ جو بہت چھوٹا تھا، نیچے گر رہا تھا۔ اس نے دیر نہیں کی اور بچے کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ فاختہ بہت پریشان ہوئی اس نے سوچا کہ کہیں یہ لڑکا میرے بچے کو مار نہ دے مگر اس کا خیال غلط نکلا۔ اس نے بچے کو نرم نرم گھاس پر رکھا اور درخت کے پیچھے کھڑا ہوگیا تاکہ فاختہ اپنا بچہ لے جائے۔ فاختہ نے اپنے بچے کو صحیح سلامت دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور چلا چلاکر اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ انور بہت خوش تھا کہ اس نے ایک نیک کام کیا ہے۔ جب وہ واپس جانے لگا تو فاختہ نے اسے کہیں سے ایک پتھر لادیا۔ وہ پتھر بہت پیارا تھا۔ اس نے پتھر اپنی جیب میں رکھ لیا اور گھر واپس آگیا۔ ماں نے کام سے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا واقعہ سنادیا۔ جب ماں نے پتھر دیکھا تو بہت حیران ہوئی اور اس نے پتھر سنار کو دکھایا اور پوچھا کہ اس پتھر کی کیا قیمت ہے۔ سنار نے پتھر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے پوچھا۔ ’’ماں جی! یہ پتھر آپ نے کہاں سے لیا ہے؟‘‘ ماں نے ساری بات بتادی۔ سنار نے کہا کہ ’’ماں جی! یہ تو لاکھوں روپئے کا پتھر ہے، میں تمہیں اس کے دس لاکھ روپئے دوں گا‘‘۔ ماں یہ سن کر بہت خوش ہوئی۔ اللہ نے ان کے لئے ایک اچھا وسیلہ بنا دیا تھا اور وہ دونوں ماں بیٹا بہت خوش تھے۔ انہوں نے ان پیسوں کو نیک کاموں میں خرچ کیا اور خوشحال زندگی گزارنے لگے۔

گھوڑا اور گدھا
ایک آدمی کے پاس ایک گھوڑا اور ایک گدھا تھا وہ ان دونوں کو بازار لے جارہا تھا آدمی نے اپنا سارا سامان گدھے پر لاد رکھا تھا ۔ گھوڑا غرور سے اکڑتا ہوا چل رہا تھا ۔ گدھا بے چارا بھاری بوجھ کے نیچے دبا جارہا تھا اسے دو قدم چلنا دوبھر ہوگیا تھا ۔ آخر اس نے گھوڑے سے کہا بھائی گھوڑے تھوڑا سا بوجھ تم لے لو میں اتنا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا ۔ گھوڑے نے منہ پھیر کر جواب دیا ۔ میں کیوں لے لوں مجھے تیری اور تیرے بوجھ کی کیا پرواہ ہے ؟ خبردار جو پھر کبھی مجھ سے بوجھ بانٹنے کو کہا ۔ گدھا خاموش ہوگیا ۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ گدھا تھک کر گر پڑا ۔یہ دیکھ کر مالک نے گدھے کا سارا بوجھ اتارکر گھوڑے کی پیٹھ پر لاد دیا ۔ اب گھوڑے سے چلا نہیں جارہا تھا ۔ اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر مالک کے ڈنڈے کے آگے اس کی ایک بھی نہ چل سکی ۔ مجبور ہوکر اسے سارا بوجھ بازار تک لے جانا پڑا ۔ راستے میں گدھے نے گھوڑے سے کہا بھائی اگر تم پہلے ہی تھوڑا سا بوجھ لے لیتے تو سارا بوجھ لے کر کیوں چلنا پڑتا ۔ گھوڑے نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کرتا ۔ اس لئے تو بڑے کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد کیا کرو کیونکہ یہ ہمارا اولین فرض ہے ۔