فائر سیفٹی کے لئے عصری اقدامات ضروری

ہندوستان میں آگ سے محفوظ رہنے والے اقدامات میں خامیوں کو دور کرنے کے لیے اب تک سخت کارروائی نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں آئے دن آتشزدگی کے واقعات میں اضافہ انسانی جانوں کا ضیاع اور املاک کا اتلاف معمول بن گیا ہے ۔ دارالحکومت دہلی میں آتشزدگی کے کئی حادثے ہوئے ہیں ۔ سنیما تھیٹر ہوں یا تجارتی عمارتیں ، ہوٹلیں ، بازار ، عوام کے لیے جان لیوا ثابت ہورہے ہیں ۔ عمارتوں کو آگ سے محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر کے فقدان کے باعث انسانی اموات و املاک کی تباہی افسوسناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ۔ دہلی ہی میں گذشتہ سال ایک ماہ کے اندر آگ لگنے کے دو بڑے واقعات ہوئے تھے ۔ اب دہلی کے مصروف ترین بازار قرول باغ کی ایک ہوٹل کی آخری منزل پر لگی آگ سے 17 افراد زندہ جل کر ہلاک ہوئے ۔ یہ واقعہ افسوسناک اور انسانی لاپرواہی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ ممبئی کی کملامل ہو یا مدورائی کی میناکشی مندر میں آگ حادثے یا حیدرآباد کی تاریخی نمائش میں حالیہ آتشزدگی کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں فائر سیفٹی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ حکومت سرکاری محکمے اور خود جائیداد کے مالکین انسانی زندگیوں کو جوکھم میں ڈالنے والی خامیوں کو نظر انداز کردئیے ہیں ۔ عمارت میں آگ لگنے پر باہر نکلنے کا راستہ نہ ہونے یا راستہ کی موجودگی کے باوجود رکاوٹوں کی وجہ سے عوام اس عمارت میں پھنس جانے سے جانی نقصانات کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ۔ دہلی کی ہوٹل میں یپش آیا آگ کا حادثہ اور اس طرح کے حادثات کو ایک ہنگامی صورتحال سمجھ کر اگر حکومت اور متعلقہ محکمے سخت اقدامات کرتے ہیں تو آگے چل کر اس طرح کے واقعات سے نمٹنے اور آگ پر قابو پانے یا آگ پیدا ہونے کے امکانات کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ کسی مصروف تجارتی علاقہ میں آتشزدگی کا بڑا واقعہ اس علاقہ کی تجارت کو بھی تباہ کردیتا ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق سال 2015 میں 18,450 آتشزدگی کے واقعات ہوئے ہیں ۔ اس میں کئی افراد ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ہندوستان میں عمارتوں کی تعمیر میں تیزی آئی ہے خاص کر ہمہ منزلہ عمارتوں کی تعمیر اندھا دھند طریقہ سے کی جارہی ہے ۔ رہائشی علاقوں میں خاص کر ہمہ منزلہ بلڈنگ مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں ۔ حادثات کی صورت میں عمارت میں پھنسے افراد کو باہر نکالنے میں مشکلات آتے ہیں ۔ کمرشیل عمارتوں میں آگ لگنے کا حساس مقام اسٹوریج سیکشن ہوتا ہے نیز ویر ہاوز جہاں اشیاء کی تیاری ہوتی ہے ۔ آگ سے بچنے والے انتظامات نہ ہونے سے آتشزدگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ اگرچیکہ ایسی اشیاء جو آتشیں طور پر حساس نہیں ہوتیں آگ لگنے پر تیزی سے آگ پکڑتے ہوئے مہیب آتشزدگی میں تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ فائر سرویس کو چوکس رکھنا ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ لیکن آتش فرو عملہ اور فائر ڈپارٹمنٹ کو مطلوب عصری ٹکنالوجی سے آراستہ کرنے میں کوتاہی کی جاتی ہے جیسا کہ نمائش میدان میں اسٹالس کو لگی آگ بجھانے کے لیے فائر انجن تو موجود تھا مگر اس میں پانی ہی نہ تھا اور آتش فرو عملہ بھی آگ پر قابو پانے کے طور طریقہ سے نابلد تھا ۔ یہ فائر انجن بھی نمائش میں نمائش بن کر رہ گیا ۔ نتیجہ میں 150 سے زائد اسٹالس خاکستر ہوگئے اور کروڑہا روپئے کا نقصان ہوا ۔ احتیاطی اقدامات اور تعمیراتی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ بعض عمارتوں میں تمام تر انتظامات اور احتیاطی اقدامات ہونے کے باوجود ایک وقت گذرنے کے بعد ان کی دیکھ بھال میں کی جانے والی کوتاہیوں سے بھی حادثے ہوتے ہیں ۔ دہلی قرول باغ ہوٹل حادثہ کی وجہ برقی تاروں میں شارٹ سرکٹ بتائی جارہی ہے۔ برقی تاروں کی خراب کوالیٹی کا استعمال بھی آگ کا سبب بن رہی ہے ۔ اس لیے برقی تاروں کی تیاری کو بھی فائر سیفٹی اصولوں کے مطابق رکھنے کی ضرورت ہے ۔