غیبت، اعمالِ صالحہ کو ضائع کردیتی ہے

یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ بڑی چیز کی آفتیں بھی بڑی ہوتی ہیں، چنانچہ عمل صالح کے لئے یہ کتنی بڑی آفت ہے کہ ’’غیبت سے سارے اعمال صالحہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ غیبت عمل صالح کی چور ہے، اگر عمل صالح کے خزانے میں یہ چور (غیبت) گھس جائے تو سارا خزانہ خالی ہو جائے گا۔ غیبت عمل صالح کی ڈائن ہے، جس سے اپنے عمل صالح کو بچانا اور حفاظت کرنا چاہئے۔ پھر صرف غیبت ہی ایک آفت نہیں جو عمل صالح کو چرا لے جائے، بلکہ اعمال کا تبادلہ اس کی ہزار آفتوں کی ایک آفت ہے، یعنی جس بے چارے کی غیبت کی جاتی ہے، اس کے کھاتے میں غیبت کرنے والے کے سارے نیک اعمال منتقل ہو جاتے ہیں اور اس کے گناہ اس کے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں۔
اس آفت کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ غیبت اتنی بڑی آفت ہونے کے باوجود اس میں جاذبیت اتنی ہے کہ لوگ اس کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے، اس کی جاذبیت ہی کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس سے شدید نفرت دلائی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرکے اسے چھوڑدیں۔ فرمایا: ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟‘‘۔ (سورہ حجرات۔۱۲)

غیبت کتنی گھناؤنی چیز ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب حضرت ماعزا سلمی کو رجم کی سزا دی جاچکی تھی اور یہ سزا خود انھوں نے بہ اصرار اپنے اوپر نافذ کرائی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راہ چلتے ہوئے ایک صاحب کو اپنے ساتھی سے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ ’’اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ رکھ لیا تھا، مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا، جب تک کہ یہ کتے کی موت نہ ماردیا گیا‘‘۔ یہ ایک بہت بڑی غیبت تھی، جو انھوں نے حضرت ماعزا سلمی کی کی تھی۔ کچھ دور آگے جاکر راستے میں ایک گدھے کی سڑتی ہوئی لاش نظر آئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلاکر فرمایا: ’’اترو اور اس گدھے کا سڑا ہوا گوشت کھاؤ‘‘۔ وہ دونوں سناٹے میں آگئے، عرض کیا: ’’یارسول اللہ! اسے کون کھائے گا؟‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی ابھی تم دونوں اپنے بھائی کی جو عزت ریزی کر رہے تھے (یعنی ان کے متعلق جو بات کہہ رہے تھے) وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بھی زیادہ بری ہے‘‘۔یہاں ایک نکتہ پر غور کیجئے کہ یہ بات ایک شخص نے کہی تھی، جب کہ دوسرا سن رہا تھا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو بلاکر مردہ گدھے کا سڑا ہوا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا غیبت کرنا ہی گناہ نہیں، بلکہ غیبت سننا بھی گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ والوں کے سامنے جب کسی کی غیبت کی جاتی تو وہ اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے تھے اور سننے سے انکار کردیتے تھے۔
خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا نفرت دلانے کے باوجود ہمارے مجلسی دسترخوان کی سب سے زیادہ پسندیدہ ڈش اپنے مردہ بھائی کے گوشت کی یہی ڈش ہے، جو مردہ گدھے کے سڑے ہوئے گوشت سے زیادہ بدتر ہے، مگر ہم مسلمان بڑے چٹخارے لے کر یہ ڈش تناول فرماتے ہیں۔ استغفراللہ۔ جب تک محفل میں کسی کی غیبت نہ کی جائے، محفل رنگ پر آتی ہی نہیں۔ اس مرض سے بچنا اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور جس کو یہ توفیق نصیب ہو جائے اس کے مراتب کے کیا کہنے!۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ان شاء اللہ تعالی! قیامت کے دن مجھ سے غیبت کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، کیونکہ جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ غیبت حرام ہے تو اس وقت سے میں نے پھر کسی کی غیبت نہیں کی‘‘۔
غالباً یہ روایت حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ہے کہ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص ان کی غیبت کرتا ہے تو آپ اس کے پاس کچھ تحفہ لے کر گئے۔ اس نے پوچھا: ’’آپ یہ تحفہ کس سلسلے میں لائے ہیں؟‘‘۔ فرمایا: ’’آپ میرے عظیم محسن ہیں، اس لئے شکریہ ادا کرنے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ وہ شخص حیران ہوکر بولا: ’’جناب! میں نے تو آپ پر کبھی کوئی احسان نہیں کیا‘‘۔ حضرت نے فرمایا: ’’نہیں، آپ میرے بڑے محسن ہیں، میں نے سنا ہے کہ آپ میری غیبت فرماتے ہیں۔ غیبت کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ نیکیوں اور گناہوں کا تبادلہ کردیتی ہیں۔ آپ نے اپنی نیکیاں مجھے دے کر میرے گناہ لے لئے ہیں، اس سے بڑا احسان اور کیا ہوگا‘‘۔ چنانچہ وہ شخص نادم ہوکر تائب ہوگیا۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ صوفیہ کرام کا اصلاحی انداز بہت ہی نرالا ہوتا ہے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے اللہ والوں کی!۔یہ ہے غیبت کی آفت، یعنی جس کی ہم برائی کریں گے، اس کے گناہ ہمارے کھاتے میں آجائیں گے اور ہمارے عمل صالح کا سرمایہ اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائے گا۔ اس آفت سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ غیبت کرکے یا سن کر ہر دو صورت میں ہمارے اعمال صالحہ ضائع ہوجائیں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس آفت کی پرکالہ سے محفوظ رکھے۔ (آمین) عمل صالح ایک نہایت قیمتی جوہر ہے، قرآن کریم میں اس کو ایمان کے ساتھ بطور توام (جڑواں) بیان کیا گیا ہے۔ اس کے متعدد فوائد ہیں اور اس کے لئے اجر عظیم کی بشارت دی گئی ہے۔ عمل صالح آخرت کی کرنسی ہے، اس کا چور ’’غیبت‘‘ ہے، جس سے عمل صالح کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ عمل صالح کے متعدد فوائد اور افادیتوں کے پیش نظر عام طورپر انسان اپنی نجات کے لئے اسی پر بھروسہ کرلیتا ہے کہ میرا عمل اچھا ہے اور اعمال صالحہ کا میں نے کچھ ذخیرہ کرلیا ہے، جس کی وجہ سے آخرت میں میری نجات ہو جائے گی۔ (اقتباس) (باقی تسلسل آئندہ)