غصب کردہ زمین، قبرستان کیلئے وقف نہ ہوگی

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوا، انکے ورثہ میں بیوی، چھ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ مرحوم کا آبائی موروثی مملوکہ مکان اور خالی جگہ ہے۔ اس مکان سے متصل قبرستان ہے اور اسکا راستہ مکان کے سامنے سے ہے، اس وجہ سے لوگوں کا قبرستان آنا جانا ہے۔ مقامی لوگ قبرستان کے نام، مکان اور خالی جگہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ایسی صورت میں مرحوم کی موروثی مکان اور زمین کے متعلق شرعًا کیا حکم ہے ؟
بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں مرحوم زید کا آبائی مملوکہ موروثی مکان اور خالی جگہ، انکی وفات کے بعد انکا متروکہ ہوگیا۔ اور اسمیں انکے تمام ورثہ حقدار ہوگئے۔ دوسرے افراد کا اس پر قبرستان کیلئے کہہ کر قبضہ کرنا، ناجائز اور غاصبانہ ہوگا۔ اس کی وجہ وہ مکان اور جگہ غصب کرنے سے قبرستان کیلئے وقف نہ ہوگی۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم کتاب الغصب صفحہ ۱۱۹ میں ہے : أما تفسیرہ شرعًا فھو اخذ مال متقوم محترم بغیر اذن المالک علی وجہ یزیل ید المالک ان کان فی یدہ أو یقصر یدہ ان لم یکن فی یدہ کذا فی المحیط … و أما حکمہ فالاثم والمغرم … و یجب علی الغاصب رد عینہ علی المالک۔ اور فتاوی عالمگیری جلد دوم کتاب الوقف صفحہ ۳۵۳ میں شرائط وقف کے تحت ہے : (ومنھا) الملک و قت الوقف حتی لوغصب ارضا فوقفھا ثم اشتراھا من مالکھا و دفع الثمن الیہ أو صالح علی مال دفعہ الیہ لا تکون وقفا کذا فی البحر الرائق۔
پس تمام متروکۂ زید مرحوم کے بعد ادائی مصارف تجہیز و تکفین وادائی قرض و زرمہر زوجہ و اجرائی وصیت برائے غیروارث درثلث مابقی جملہ ایکسوبیس حصے کرکے مرحوم کی زوجہ کو پندرہ ، چھ لڑکوں سے ہر ایک کو چودہ چودہ اور تینوں لڑکیوں سے ہر ایک کو سات سات حصے دیئے جائیں۔

بعد ختمِ عدتِ وفات نکاح کا اختیار ہے
کسی کو روکنے کا حق نہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر کا انتقال ہوا، انکی بیوی ہندہ، تین لڑکیاں ہیں۔ یہ تینوں لڑکیوں کی ددھیال میں صحیح پرورش نہ ہونے کی وجہ، نانا نانی کے گھر آچکے، جن کی پرورش نانا نانی کرنا چاہتے ہیں۔ ہندہ ( بیوہ) کے والد ہندہ کا نکاح، کسی اجنبی سے کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اسکی زندگی خوشحالی سے گزرے، لیکن مرحوم زید کے والدین دوسرا نکاح کروانے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئول عنہا میں بیوہ ہندہ اپنی عدت چار ماہ دس دن گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے، اسکو نکاح سے روکنے کا مرحوم شوہر زید کے والدین یا کسی اور کو اختیار نہیں۔ لقولہ تعالیٰ : والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر و عشرا فاذا بلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف و اﷲ بما تعملون خبیر ۔(سورۃ البقرۃ آیہ ۲۳۴)
ف : ہندہ کسی اجنبی شخص سے نکاح کرلے تو تینوں نابالغ لڑکیوں کی پرورش کا حق بالغہ ہونے تک نانی (ہندہ کی ماں) کو ہوگا۔ اس کے بعد دادا انکو واپس لیکر نکاح کروائے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب الحضانۃ صفحہ ۵۴۱ میں ہے: أحق الناس بحضانۃ الصغیر حال قیام النکاح أو بعد الفرقۃ الأم… وان لم یکن لہ ام تستحق الحضانۃ بأن کانت غیر أھل للحضانۃ أو متزوجۃ بغیر محرم أو ماتت فأم الأم أولی من کل واحدۃ وان علت۔ اور صفحہ۵۴۲ میں ہے: والأم والجدۃ أحق بالجاریۃ حتی تحیض … وبعد ما استغنی الغلام و بلغت الجاریۃ فالعصبۃ أولی یقدم الأقرب فالاقرب۔ فقط واﷲ أعلم