غریبی مٹانے کے نعرے ،ہمارا ہندوستان اور ہم ؟ بقلم : احمد جاوید

یہ تیرہویں صدی عیسوی کا ہندوستان تھا ۔شمال مغرب میں افغانستان (قابل وقندھار) سے جو مشرق آرکاٹ اور جنوب مغرب میں بحر عرب کے ساحلوں سے مشرق میں خلیج بنگال اور آسام اور تبت تک ایک اتنے بڑے رقبہ میں پہیلا ہوا جس کا تصور نہ پہیلے کسی نے کیا تھا اور نہ پھر کسی سے سنبھل سکا ۔ سلطان علاء الدین خلجی کے سلطنت جس کو بیرونی و اندرونی دونوں دشمنوں کا سامنا تھا۔ایک طرف منگولوں کی فوجیں تھی جو جو وسیلاب کی طرح شہر کے شہر اور ملک کے ملک بہا لے جاتیں ،دوسری طرف مقامی ڑاجواڑوں اور چھوٹی بڑی ریاستوں کی ریشہ دوانیاں،حملے اور اور بغاوتیں۔سلطان نے انکا مقابلہ کرنے کے لئے طاقتور فوجیں بنائیں،افسر اور سپاہیوں کی نقد تنخواہیں جاری کی اورانعام واکرام کا سلسلہ شروع کیا ۔ ایک اتنی بڑی حکومت اور فوج کے افسران اور سپاہیوں کی تنخواہیں ،وظائف،انعام واکرام اور سلطان کے دونوں ہاتھوں سے دولت مٹانے کی روش نتیجے میں افراط زر اور مہنگائی کا مسئلہ پیدا ہونا غیر فطری نہیں تھا سو ہوا ۔اگر اس پر قابو نہ پایا ہوتا مہنگائی لوگوں کے کمر توڑ دیتی،غریبوں کیلئے جان لیوا ہو جاتی ،کساد بازاری رعایااور افواج دونوں میں بے دلی بلکہ بے زاری پیدا کردیتی ، اور ملک دشمنوں کے نرغہ میں آجاتا اور سلطان ہار جاتا ،سلطنت بکھر جاتی۔سلطان کو جیسے ہی اس کا احساس ہوا ،اس نے اپنے حکومت اور فوج کے افسران کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کیں،تاجر وں کو ذخیرہ اندوزی،کالا بازاری اور منافع خوری سے سختی کے ساتھ روکااور غریبوں،محتاجوں ارو افلاس ماروں پر خزانوں کا منھ کھول دیا ،ان پر کثرت سے دولت لٹانے لگا ۔جدھر سے گزرتا فقیروں اور سائلوں کو مالامال کر جاتا۔
منگل کو کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے ملک کے غریبوں کو بہتر ہزار روپے کم از کم سالانہ آمدنی کی گارنٹی دینے کے اول العزم منصوبے (نیایوجنا) کا اعلان کیا تو مجھے اکیسویں صدی کے کسی حکمران کے بجائے تیرہویں صدی عیسوی کا ایک سلطان یاد آیا جو معروف معنوں میں تعلیم یافتہ بھی نہیں تھا،کیوں کہ ہمارے اکیسویں صدی کے حکمران راہل کی تنقید کر رہے تھے ،کانگریس کے اعلان کو ناقابل بتا رہے تھے ،کہہ رہے تھے کہ اس ملک کے خزانہ کاتوازن تباہ ہو جائے گااور مہنگائی جان لیوا ہو جائے گی ۔حیرانی کی تو بات یہ ہے کہ عہد وسطی کے ایک ان پڑہ بادشاہ اور اس کے مشیر جانتے تھے کہ جب سماج کے کچھ لوگوں کی امدنی بڑھ جاتی ہے یا ان کے عیش وعشرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ گوشت مچھلی زیادہ اڑانے لگتے ہیں تو بازار میں چیزوں کی مہنگائی بڑھتی ہے ،عام لوگوں کے لئے اشیائے خورد ونوش مہنگی اور عدم دستیاب ہوتی ہے ،بنیے لوٹ اور منافع خوری پر اتر اتے ہیں اور غریبوں کے لئے گرانی جان لیوا بن جاتی ہے،لیکن ہمارے اس اکیسویں صدی کے حکمرانوں کو احساس تک نہیں۔ ظاہر ہے کے خلجی کوبنیوں کے چندے سے الیکشن لڑنا تو تھا نہیں۔جانتا تھا کہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے امیروں کے تجوریوں سے دولت نکالنے،سرکاری وزراء اور کی عیاشیوں میں تخفیف کرنے اور غریبوں کے خزانوں کا منہ کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے اور ایک یہ ہیں جو سرکاری بینکوں کا دیوالیہ ہونے کے لئے غریبوں کے جیب اور ان کے گھروں سے نقد نکالنے کی چالیں چلتے ہیں ، اس سے بینک میں کہاتے کہلواتے اور ان میں جمع کی گئی رقم کو سوخت کرواتے ہیں ۔ان کے منھ کا نوالہ تک چھین کے بینکوں میں پہونچاتے ہیں کہ یہ روپیے جو جووقت ضرورت کام انے کے لئے آپ کے پاس ہیں کل بازار میں چل نہیں سکیں گے ۔ عام لوگوں سے ٹیکس کی اصولی کے لئے نئی نئی اسکیمیں لاتے ہیں ، اس کے بر عکس امیروں کو بھاری مراعات دی جاتی ہیں،یہاں تک کہ وہ اس چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر وہ بینکوں کا ہزاروں کڑوڑوں لوٹ کر ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور یہ دیکھ کر غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سے ایک سو ہزار کڑوڑ روپئے سے زائد سرمایے نکال کر لے جاتے ہیں ۔دونوں کا موازنہ کیجیئے ۔خلجی سے مٹھی بر بنیے ناراض تھے اس لئے کہ اس نے انکی لوٹ کسوٹ اور منافع خوری پر قد وغن لگائی گئی تھی ، تھوڑے بہت سرکاری حکام بھی ناراض ہوئے ہونگے لیکن آج تک اس دنیا ایک عظیم فاتح اورا سے بھی کامیاب مدبر اور منتظم کے طور پر یاد کرتی ہے ۔عہد وسطی کے حکمرانوں میں خلجی اور تغلق بہت یاد کئے جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم مودی کی بات کریں تو آپ کو خلجی سے بھی زیادہ محمد تغلق یاد آئیں گے ۔ محمد بن تغلق کی ہزار خوبیاں اپنی جگہ ہیں ،لیکن وہ ایک مغلوب الغضب ،ضدی اور سر پھرا بادشاہ مشہور ہے ۔اس نے ہمالہ کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر جررا بنایا تھا لیکن اسکا انجام کیا ہوا۔اس نے تانبہ کے سکوں کی چاندی کے سکہ چلائے ۔چہیتوں پر خزانوں کے منھ کھول دیئے۔ خزانہ جب ختم ہو گیا تو حکم دیا کہ تانبہ کے سکہ کی قیمت چاندی کے سکے کے برابر سمجھی جا ئے ،پھر غصہ میں آکر اس نے نیا سکہ منسوخ کر دیا اور لوگوں سے تانبے کے سکے واپس لے کر انہیں چاندی کے سکہ دیئے ۔ دنیا آج تک اسے سر پھرا بادشاہ کے نام سے یاد کرتی ہے اور حکمرانوں کو تغلقی فرمان کا طعنہ دیتی ہے ۔
بی جے پی نے 2014 میں اقتدار سنبھالا تھا تو ملک کی فی کس آ مدنی 85ہزار روپئے تھی ،2019میں دعوی کر رہی ہے کہ اب یہ ایک لاکھ پچس ہزار تین سو ستانوے روپیئے ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ اس مدت میں افراط زر کی شرح کس رفتار سے بڑی ہے ،مٹھی بھر سرمایہ داروں کی آمدنی میں سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے یا خط افلاس کے نیچے جینے والوں کتنی بڑھی ہے ؟اگر ایک خاندان کے لئے باہتر ہزار روپیئے سالانہ جو یومیہ ایک سو سیتیس روپیہ بیس پیسے ہوتے ہیں یہ رقم بھی ارباب اقتدار کو ناقابل عمل لگتی ہے اور اس میں ملکی معیشت پر لاکھوں کڑوڑں کا بوجھ ا ن کو نظر اتا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔ سرکاری خرچوں میں بے دریغ اضافہ کرنے کی صرف ایک مثال اپنے سامنے رکھیں اور ان کو سوچ کر سمجھ جائیں ۔ وزیر اعظم مودی نے 2014سے اب تک صرف غیر مکی دوروں پر سوادو ہزار کڑورڑروپئے خرچ کئے ہیں جبکہ ان کے پیش رو نے اسی مدت میں صرف چھ سو کڑوڑ روپیئے خرچ کئے تھے ۔ ملکوں کی فلاح اور ترقی میں حکمرانوں کی نیت بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1971 میں جب غریبی مٹاؤ کانعرہ دیا تھا تو ملک کے عوام نے بہت ہی جوش وخروش اور پوری قوت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا تھا لیکن یاد کیجیئے کہ اس موقع پر انکا اوروں سے بڑھ کر ساتھ دینے والے چندر شیکر نے چند سال بعد ایمرجنسی کے دوران جیل کے اندر اپنی ڈائری میں لکھ رہے تھے کہ سرکار نے اگر اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو جمہوریت سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اور غریبوں ہٹاو کا نعرہ دے کر عوام کو دھوکہ دیا جا رہاتھا ۔کاش ایسا نہ ہوا ہوتا ۔ کانگریس کی حکومتوں نے غریبی مٹھانے کی بہت کوششیں کی لیکن جس عزم اور جس حوصلہ کی ضرورت تھی نہیں جٹا پائی ۔ نصف صدی بعد اگر اس نے راہل گاندھی کی قیادت میں ملک سے غریبی مٹھانے کا عزم محکم کیا ہے تو بلاشبہ اس کا ایک حوصلہ مندانہ فیصلہ ہے ۔ اس کی پچھلی حکومتوں نے بھی حق اطلاعات ،حق تعلیم اور حق خوراک جیسے قوانین اور روزگار گارنٹی جیسے منصوبہ نافذ کئے ہیں ۔
(سیاست نیوز)