عورت کی عظمت اسلام کی نظرمیں

صنف نازک کسی نہ کسی عنوان سے ظلم وجورکا نشانہ بنی رہی ہے،اسلام نے اس کیلئے خصوصی احکام دیئے اوراس پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سدباب کیا،قدرت نے عورت ومردکی تخلیق کی ہے،خالق حقیقی جوفطرت انسانی کا حقیقی رازداں ہے وہی بہترجانتا ہے کہ کس کی کیا ضرورت ہے اورکس کو کیا دیا جائے ۔انسانی عقل اس کنہ وحقیقت کا ادراک نہیں کرسکتی ،اماںحواعلیہا السلام کی تخلیق کا حضرت آدم علیہ السلام سے ہونا ایک مسلم حقیقت ہے ’’ خلق منہا زوجہا‘‘ سے خالق فطرت نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے، انسانی معاشرہ نے اس حقیقت کو فراموش کرکے عورت کودائرہ انسانیت ہی سے خارج کردیا تھا،بعض مذاہب نے عورت میں انسانی روح ہونے کا انکارکیا، بعضوں کی رائے تھی کہ وہ ایک ناپاک جانور ہے جس میں روح نہیں،کچھ نے عورت کو انسان تو مانا لیکن اسے وہ مقام نہیں دیا جسکی بحیثیت انسان وہ مستحق تھی، اسکووہ حقوق نہیں دیئے گئے جواس کو انسان ہونے کے ناطے ملنے چاہئے تھے، قدرت نے عورت کو مردہی کی طرح روح بخشی اورعقل وشعورکا مالک بنایا،لیکن سماج نے اس کا استحصال کیا،اس کوایک سامان زندگی تصورکرلیا گیا کہ جس سے بوقت ضرورت فائدہ اٹھالیا جائے اوربس، دورجاہلیت میں وہ جانوروں کی طرح خریدی اوربیچی جاتی تھی،عورت کو وراثت میں نہ صر ف یہ کہ حصہ نہیں دیا جا تا تھا

بلکہ وہ بھی مرنے والے کے مال اوراسکی جائیداداوردیگراسکے مستعملہ سازوسامان کے ساتھ مال میراث سمجھی جاتی تھی۔ لڑکی کی پیدائش پر اسکو زندہ درگورکردینا باعث عزوشرف مانا جاتا تھا، جاہلانہ ومتعصبانہ سماج میں شوہرکی موت کے بعد اسکے زندہ رہنے کوزمین پر بوجھ تصورکیاجاتا تھا۔’’ستی ‘‘ کی رسم اسکی ایک مثال ہے کہ بیوی کو شوہرکی نعش کے ساتھ زندہ جل کر موت کو گلے لگانے کا چلن عام تھا،آج بھی کہیں کہیں تعلیم یافتہ معاشرہ میں بھی اس غیر انسانی رسم کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔الغرض یہ تصور تھا کہ عورت کی حیثیت مردکیلئے ایک خادمہ کی سی ہے، قرآن نازل ہوا تو اس نے عورتوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کیا۔عدل وانصاف قائم ہوا،عورتوں کے حقوق مردوں پرایسے ہی لازم وضروری قرار دئے گئے جیسے کہ عورتوں پر مردوں کے ہیں ۔ عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مروں کے ہیںعرف ودستورکے مطابق۔ (البقرہ۲۲۸) یعنی مردوں پر عورتوں کے حقوق بھی اسی طرح کے عائد کئے گئے ہیں۔جس طرح کے عورتوں پر مردوں کے حقوق عائد ہیں ،ہر دو ان حقوق کی ادائیگی کے پابند ہیں ۔اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ نے پہلے عورتوں کے حق کا ذکرفرمایا ۔ کیونکہ مردتو اپنی طاقت وقوت اوراللہ کی عطاکردہ برتری کے بل بوتے پر اپنے حقوق تو عورتوں سے بزوروجبر منواہی لیتے ہیں لیکن عورت ظالمانہ سماج کی بناء مردوں سے اپنے حقوق پانے میں ناکام رہتی ہے،اس لئے اسکے حقوق کے ادائیگی کو یہاں مقدم کیا گیاہے ،شارحین نے ’’ولہن ‘‘سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نکتہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ مردکی مردانہ وجاہت اورعورتوں پر ایک درجہ اسکوحاصل فضیلت اوراللہ کی بخشی ہوئی شرافت اوراعلی انسانی قدراس بات کی متقاضی ہے کہ مردعورت کی حقوق اداکرنے میں سبقت کرے اوربڑی ہی خوشدلی وبشاشت قلبی کے ساتھ اسکے حقوق احسن طریقہ سے اداکرے۔لیکن خالق فطرت نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ وللرجال علیہن درجۃ۔ مردوں کوحاصل ایک گونہ تفوق کی حکمت ومصلحت ’’واللہ عز یز حکیم ‘‘سے واضح ہے۔اس تفوق وبرتری کا اقتضاء تو یہ ہے کہ مردخاص طورپر ازدواجی زندگی میں تحمل وبردباری سے کام لے،اپنے حقوق کامل طورپر اداکرتے ہوئے عورت کی طرف سے اس (مرد)کے حقو ق میں کوئی کوتاہی ہورہی ہو تب بھی صبروبرداشت سے کام لے،اس کی وجہ اپنے اوپر عائدعورت یعنی بیوی کے حقوق وفرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ برتے ،کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے عورتوں کے ساتھ بہتر معاشرت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے،ارشاد باری ہے’’ان کے ساتھ معروف ڈھنگ سے زندگی کزارو،اگرچہ تم ان کو ناپسند کرولیکن بہت ممکن ہے جس کو تم براسمجھو اوراللہ تعالی اس میں خیرکثیر رکھ دیا ہو‘‘۔(النساء ۱۹)انسان کی نا پسند یدگی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں اس میں امکان اس بات کا بھی ہے کہ ناپسندیدگی خواہشات نفس کی بنیاد پر ہو،یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ناپسند یدگی کی وجوہات درست ہوں لیکن ہر حال میں مردکواپنے عالی رتبہ ہونے کی وجہ بلند ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اپنے تصوروخیال کے مطابق عورت میں حسن وجمال کا نہ پایا جانا یا اسکے عادات واطوار، برتاؤ واخلاق میں کوئی کمی کوتاہی کا دیکھا جانا مرد کو ہر گز بددل نہ کرے نہ ہی اسکی وجہ مردکی زندگی اوربرتاؤ میں وہ جھلک آنی چاہئے جو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے،انسان کیا اورانسان کی نگاہ کیا، ہوسکتا ہے عورت کی اُن خوبیوں تک مردکی نگاہ نہ پہنچ سکے جو اللہ نے اسکے اندررکھی ہیں ،اس لئے اللہ کی رضاء کیلئے عمدہ و بھلے طورپر زندگی گزارنے سے وہ نعمتیں نصیب ہوسکتی ہیں جن پر امتحان کی غرض سے پر دہ ڈال دیا گیا ہے،’’خیراکثرا ‘‘سے اسی طرف اشارہ ہے ۔

خالق فطرت نے مردوعورت کی ساخت میں تخلیقی اعتبار سے بعض امور میں فرق رکھا ہے، اس لئے وہ جسمانی اورنفسیاتی اعتبارسے مردسے مختلف ہے،فطرت کا نظام تقسیم کارپر مبنی ہے اس لئے اس کائنات میں ہرایک کا کردار جدا ،اورہرایک کی ذمہ داری الگ ہے ، یہ نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ دونوں انسان ہونے کے باوجوداپنی تخلیقی ساخت میں فرق کی بناء فرائض وذمہ داریوں کے اداکرنے میں مختلف ہوں۔یہ بھی کہ مردعورتوں کے سربراہ اورانکے نگران ہوں،خالق فطرت نے جب عورتوں کے حق میں اس مصلحت کا لحاظ رکھا ہے تو یہی بات حق بھی ہے اور قرین انصاف بھی اوربرضاء وخوشی قابل عمل بھی،یہ برتری عنداللہ مردکی فضیلت کی وجہ نہیں بلکہ کاردنیا کے درست نظم وانصرام کی غرض سے ہے ۔

مرد عورتوں پر حاکم ہیںاس وجہ سے کہ اللہ سبحانہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال خرچ کئے ہیں ۔(النساء ؍۳۴) مرد کی حاکمیت وقوامیت کی وجہ ایک تو اس کو بخشی گئی ذہنی صلاحیتوں کی بنا ء پر ہے جو اللہ کی دین ہے ۔دوسری وجہ عورت کی فطری ،صنفی کمزوری اور اس کی عفت وعصمت کے تحفظ اور اس کی ضروریات زندگی کی کفالت کی بناء پر ہے ۔  باقی رہا اللہ کی ہاں فضیلت تو ایمان وتقوی اوراعمال صالحہ کی بنیاد پر ہے، بہت ممکن ہے کہ بعض خواتین تقرب الی اللہ اوردرجات اخروی میں مردوں سے بازی لے جائیں ۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کو جوواجبی حقوق ملنے چاہئے اسلام نے اسکی پرزوروکالت کی ہے اوراسکواسکاحق دلایاہے،ظاہرہے عورتوں کے حقوق میں کوتاہی انسانی شرافت کے مغائراورنظام انصاف کے خلاف تھی،اس لئے عورتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وجوراورقساوت وشقاوت کے روویے کی اسلام نے جہاں بیخ کنی کی ہے وہیں آزادی کے عنوان سے عورتوں کی مردوں کی سرپرستی سے بے نیازی خالق فطرت کے دئیے گئے قوانین سے غیرفطری آزادی اوراپنی ضروریات کے تکفل کیلئے آزادانہ معاشی تگ ودومیں انہماک پر اسلام نے سخت روک لگائی ہے ، عورت کو اس بات کا ادارک وشعور ہونا چاہئے کہ مغربی کلچر کے دیئے گئے’’ آزادیٔ نسواں ‘‘کے نعرہ کے ساتھ چھیڑی جانے والی غیر اخلاقی وغیر انسانی مہم میں اسکی آزادی اور اس کے ساتھ بھلائی وخیر خواہی نہیں ہے بلکہ اس میں اسکی بربادی وبے آبروئی کا خوب سامان ہے۔ جسکوآج مغرب بھی قبول کررہا ہے،آزادی کے عنوان سے عورتوں کو دی گئی کھلی چھوٹ کی وجہ خاندانی نظام بکھرگیا ہے ،فطری طرزپر نکاح کے بندھن کو توڑکراور مرد کی سرپرستی سے بے نیازہوکر عورت جس ظلم کا شکارہوئی ہے وہ آزاد مغربی تہذیب کی دین ہے جو آج اسکو خون کی آنسورلارہی ہے ،نہ اسے ازدواجی زندگی کا سکون حاصل ہے نہ  فطری جذبہ کی تسکین اس کو میسر ہے، اورنہ ہی اولاد کو ماں کی محبت اوراس کا پیار حاصل ہے ، نیزخاص طورپرعورت کی ضعیفی کا زمانہ بڑاقابل رحم ہے، شوہراوراولاد جیسے رشتوں میں سے کوئی بھی اسکایارومددگارنہیں ،آزادیٔ نسوان کے نعرے سے جوسماج تشکیل پایاہے وہ اب خود ان کیلئے عذاب جان بنا ہواہے ،ظاہر ہے خالق فطرت کے منشاء کے مغائرجو بھی روش اختیار کی جائے ناکامی ونامرادی ہی اس کا مقدربنے گی۔ الغرض اسلام نے عورت کو جوتقدس واحترام دیا ہے اس میں عورت کیلئے سکون وراحت کا سامان ہے ،جائزنکاح کے ذریعہ وہ مرد کے گھر کی خادمہ نہیں بلکہ مالکہ ہوتی ہے ،اور اپنے محبوب شوہر کے دل کی دنیا میں وہ ایک ملکہ کی حیثیت رکھتی ہے اس طرح اسکے راحت وآرام اوراسکی بنیادی ضرورتوں کے تکفل کا شوہرذمہ دارہوتا ہے ،سماج میں ایسی عورت کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ،شوہرکی سرپرستی اوراسلامی احکام کے مطابق عملی زندگی سے ایک عورت ہوسناک نگاہوں سے محفوظ ہوجاتی ہے ،شوہرکے ساتھ اولاد کی نعمت اسکے اعزازومرتبہ میں اوراضافہ کردیتی ہے۔اسلامی احکام کا حصار اسکو مردوں کے ہاتھوں ایک کھلونہ بننے سے محفوظ رکھتا ہے ۔