عوام کی قوت ِ خرید

ہندوستان کے غریب عوام، بی جے پی حکومت کی زیادتیوں اور خرابیوں کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹماٹر کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کے باوجود لوگ اُف تک نہ کرتے ہوں تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ عوام کی قوت خرید نہ ہونے کے باوجود قوت برداشت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ تقریباً تمام ترکاریوں کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ ٹماٹر 100 روپئے فی کیلو گرام فروخت ہورہا ہے۔ عوام کو کم از کم 250 گرام تا 500 گرام ٹماٹر سے ہی اکتفا کرنا پڑ رہا ہے، مگر اس بھیانک مہنگائی کے باوجود الیکٹرانک میڈیا خاموش ہے۔ کوئی ٹی وی چیانل حکومت کی اس خرابی کی جانب توجہ نہیں دے رہا ہے۔ ماضی میں جب یو پی اے حکومت میں مہنگائی کا ذکر ہوتا تو الیکٹرانک میڈیا چیخ چیخ کر اپنے سماجی فرائض کا مظاہرہ کرنا اور بطور اپوزیشن بی جے پی بھی عوام کو مشتعل کرتے ہوئے یو پی اے حکومت کی خرابیوں سے باخبر کرتی ہیں۔ اس مرتبہ مرکز کی مودی حکومت کی خرابیوں پر چشم پوشی اختیار کرنے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے عوامی پریشانیوں کو یکسر نظرانداز کردیا ہے تو یہ حکمرانوں کے تسلط کی علامت ہے۔ جب خوف طاری ہوتا ہے تو آواز دَب جاتی ہے۔ ہر سال ٹماٹر کی پیداوار اور قلت پیدا ہوتی ہے۔ ماہ جون تا ستمبر کے دوران ٹماٹر کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ماضی میں پیاز کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد حکومتیں گر جانے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت بھی پیاز کی قیمت کی وجہ سے گر گئی تھی جس پر یہ تبصرہ کئے گئے تھے کہ پیاز نے حکومت کو بھی رُلا دیا ہے لیکن اب پیاز کی بجائے ٹماٹر اور ہری مرچ نے اپنے خریداروں کو رونے پر مجبور کردیا ہے۔ ٹماٹر کی خریدی ایک عام آدمی کے لئے محال بنتی جارہی ہے۔ اگر کسی کو مارکٹ سے ٹماٹر خریدتا دیکھا گیا تو اس پر شعر بھی کہے جارہے ہیں کہ ’’تو اپنے غریب ہونے کا دعویٰ مت کر ،ائے دوست ۔ ہم نے دیکھا ہے تجھے بازار سے ٹماٹر لیتے ہوئے‘‘۔ یہ واقعہ بھی توجہ طلب ہے کہ مدھیہ پردیش کے اندور شہر کی ترکاری مارکٹ میں سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ رات دن ٹماٹر کے ذخیرہ کی نگرانی کے لئے سکیورٹی گارڈس کو تعینات کیا گیا ہے کیونکہ ہول سیل مارکٹ سے ٹماٹر کے سرقہ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ نہ صرف اندور بلکہ دیگر ریاستوں کے شہروں میں ترکاری مارکٹ میں سکیورٹی کو دیکھا گیا ہے۔ ممبئی کے ایک علاقہ سے 300 کیلوگرام ٹماٹر کا سرقہ کیا گیا جس کی قیمت 70,000 روپئے بتائی گئی ہے۔ پولیس میں ٹماٹر کے سرقہ کا کیس بھی درج کیا گیا۔ ملک میں دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور جی ایس ٹی سے ہونے والے نقصانات سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے روزمرہ کی ضرورت والی چیز ’’ٹماٹر‘‘ کی قیمت میں اضافہ کی سازش رچائی جاسکتی ہے یا پھر ٹماٹر کے ذریعہ اپنے پراڈکٹس تیار کرنے والی غذائی اشیاء ساز کمپنیوں نے مارکٹ کے ٹماٹر کو غائب کرکے اس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا سبب پیدا کیا ہے۔ قیمتوں پر قابو پانے کیلئے سرکاری محکمے موجود ہیں۔ مارکٹ میں تمام اشیاء کی قیمتوں پر ایک کنٹرول نظام کام کرتا ہے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب سے بی جے پی حکومت کو دن بہ دن طاقت ملتی جارہی ہے۔ غریب کی جب ہلکی کرنے کی خوبیوں والی حکومت کے خلاف آواز نہ اُٹھایا جانا بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ ملک میں کئی مقامات پر شدید بارش کے باعث ٹماٹر کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ ٹماٹر بارش کے موسم میں مہنگا ہوجاتا ہے۔ اس کی سربراہی میں کمی کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس کمی کا فائدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھانا شروع کیا ہے۔ ٹماٹر کے فوائد سے متعلق جوں جوں ریسرچ میں اضافہ ہورہا ہے، غریبوں کی اس شئے پر کارپوریٹ اداروں نے قبضہ کرنا شروع کیا ہے۔ ٹماٹر پیدا کرنے والی ریاستوں ہماچل پردیش، مہاراشٹرا، اُترپردیش اور ہریانہ میں بی جے پی کی حکمرانی ہے اور یہاں سے ٹماٹر کی سربراہی میں کم کردی گئی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد عوام کی پریشانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ دن بہ دن مختلف بہانوں سے عوام کو پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر عوام اور عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں کی خاموشی کا نقصان بھی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ ملک میں ٹماٹر کی تقریباً 18 ملین ٹن پیداوار ہوتی ہے۔ محکمہ اُمور صارفین کو جملہ 22 ضروری اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنے کی ذمہ ذاری حاصل ہے۔ اس کے باوجود ضروری اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے۔