عوام کی جیب پر خاموش ڈاکہ جاری

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
عوام کی جیب پر خاموش ڈاکہ جاری
ملک میں پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جار ہا ہے ۔ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میںاضافہ کا نریندر مودی حکومت نے ایسا میکانزم تیار کردیا ہے جس کے ذریعہ اس مسئلہ پر کسی کی توجہ ہی نہیں ہو پا رہی ہے ۔ جس وقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول تھا اس وقت کسی بھی وقت اضافہ کیا جاتا تو سارے ملک کی توجہ اس پر مبذول ہوجاتی ۔ جب کبھی کمی ہوتی تب بھی اس کی خبریں آتیں لیکن بعد میں ان قیمتوں پر ہر پندرہ دن میں ایک مرتبہ نظرثانی کا عمل شروع ہوا ۔ اس وقت بھی پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں کمی اور اضافہ دونوں ہی صورتوں میں عوامی رد عمل ظاہر ہوتا ۔ اس وقت بھی کمی تو شاذ و نادر ہی ہوتی اور تقریبا ہر وقت اضافہ ہی درج کیا جاتا تھا ۔ تاہم جس وقت سے نریندر مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ایسا لگتا ہے کہ عوام کی جیبوں پر ڈالنے کا کوئی طریقہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ نوٹ بندی کے ذریعہ عوام کے پیسے کو بینکوں میں منتقل کردیا گیا ۔ وہاں سے بڑے کارپوریٹ تاجر اس پیسے کا غبن کرنے لگے ہیںاور برسر اقتدار جماعت کو چندہ دیتے ہوئے ملک سے فرار کی راہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ پھر جی ایس ٹی عائد کرتے ہوئے عوام پر الگ سے بوجھ عائد کردیا گیا اور جہاں تک پٹرول کی قیمتوں کا سوال ہے اس پر تو حکومت خاموشی سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف ہے اور یومیہ اساس پر عوام پر بوجھ عائد ہو رہا ہے ۔ حکومت کا طریقہ کار ایسا ہوگیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی توجہ بھی اس معاملہ پر نہیںہو پا رہی ہے ۔ تقریبا ہر روز پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ اضافہ اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میںکمی آئی ہے ۔ یو پی اے حکومت کے دور میں عالمی منڈی میں پٹرول کی جو قیمتیں تھیں وہ اب نصف ہوگئی ہیں اس کے باوجود پٹرولیم اشیا کی قیمتوں میں حکومت اپنے محاصل بڑھاتے ہوئے اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے اور اپنے خزانے بھر نے میں جٹی ہوئی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کارپوریٹ گھرانے جو اسکامس کرتے جارہے ہیں ان کی پابجائی بھی حکومت پٹرولیم اشیا پر محاصل کے ذریعہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ عوام پر عائد ہونے والی بوجھ کی اسے کوئی فکر نہیں ہے ۔
حکومت کی جانب سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل نہیں کیا جارہا ہے اور محاصل میں اضافہ کرتے ہوئے بوجھ بڑھایا جا رہا ہے ۔ اب حکومت نے جو اضافہ کیا ہے اس کے نتیجہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں گذشتہ چار سال میں سب سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ مرکزی بجٹ کی پیشکشی کے وقت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ حکومت کے محاصل میں کمی کرتے ہوئے صارفین کو راحت دی جائے لیکن وزیر فینانس ارون جیٹلی نے اپوزیشن کے مطالبہ اور عوام پر عائد ہونے والے بوجھ دونوں کو نظر انداز کردیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے عائد کئے جانے والے محاصل کے نتیجہ میں ہندوستان میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں سارے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے تیل کی قیمتوں کے ذریعہ عوام پر بوجھ کا سلسلہ برقرار رکھا گیا ہے ۔ مرکز نے ریاستوں سے اپنے ویاٹ میں کم کرتے ہوئے صارفین کو راحت دینے کی اپیل کی تھی لیکن خود بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی اکثریت نے ایسا کرنے سے گریز کیا ہے ۔ صرف چار ریاستوں مہاراشٹرا ‘ گجرات ‘ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش میں ویاٹ میں کمی کی گئی لیکن مابقی بی جے پی اقتدار والی ریاستوں نے ‘ جن کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے ‘ ویاٹ میں کمی اور عوام کو راحت پہونچانے سے گریز کیا ہے ۔ مرکزی حکومت اپنی اس اپیل پر خود بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں عمل کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔
2014 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے مرکزی حکومت نے تقریبا 9 مرتبہ پٹرول اور ڈیزَ پر صرف 2016 تک اکسائز میں اضافہ کیا تھا اور صرف ایک مرتبہ اس میں کمی کی گئی تھی ۔ 2016 کے بعد سے خاموشی سے اضافہ کا سلسلہ جاری ہے ۔ جو میکانزم یومیہ اساس پر قیمتوں پر نظر ثانی کرنے کا ہے اس کے نتیجہ میں نہ عوام ان قیمتوں پر توجہ دے پا رہے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں اس پر توجہ دے رہی ہیں۔ نتیجہ میں ملک کے عوام مہنگائی کی مار سہنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ عوام اس کے باوجود راحت سے محروم کردئے گئے ہیں۔ حکومت کو اپنے خزانے بھرنے کی فکر کرنے کی بجائے عوام کو راحت دینے پر توجہ دینی چاہئے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس مسئلہ پر حکومت کی توجہ مبذول کروانے کا فریضہ ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے وہ احتجاج کا راستہ اختیار کرسکتی ہیں۔