عوام کی توجہ بانٹنے کی کوشش

جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آتاجارہا ہے ملک بھر میں مختلف گوشوں کی جانب سے عوام کی توجہ بانٹنے کی کوششوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ ہر گوشہ اپنے اپنے طور پر اقتدار اور حکومت سے قربتیں بڑھانے کیلئے اپنے طور پر کوششیں شروع کرچکا ہے ۔ کوئی کسی انداز سے یہ کوشش کر رہا ہے تو کوئی کسی اور انداز سے اپنے کام میں جٹ چکا ہے ۔ایک بات میڈیا کے ذریعہ یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ عوام کو انتخابات سے قبل جن مسائل پر توجہ دلانے اور ان میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ان کو کسی طرح سے عوام کی توجہ سے ہٹانے اور عوام کو غیر اہم اور بے مطلب مسائل میں الجھانے کی کوششوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ ویسے تو میڈیا کی جانب سے گذشتہ ساڑھے چار سال سے میڈیا مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ حکومت کی ناکامیوں کو کہیں پس منظر میں ڈھکیل کر ایسے مسائل میں عوام کو الجھا دیا جائے جن سے ان کے مستقبل یا ملک کے مسائل کی یکسوئی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ حکومت کے وعدوں پر عوام کو باشعور بنانے اور حکومت کو گھیرنے کی بجائے اس کی ناکامیوں کو کسی طرح سے چھپانے کیلئے میڈیا کے کئی گوشے مصروف ہیں۔یہ زر خرید میڈیا ہے جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بجائے بد دیانتی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ ملک و قوم کو درپیش مسائل پر توجہ کرنے کی بجائے اپنے مفادات کی تکمیل اور حکومت اور اس کے مٹھی بھر ذمہ داروں کو خوش کرنے میں میڈیا اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے ۔ کہیں کسی طرح سے سروے کرتے ہوئے ایک مخصوص گوشے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے تو کہیں کسی شخصیت کو جادوئی چراغ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کے رگڑنے سے پلک جھپکتے میں مسائل حل ہوجائیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ ساڑھے چار سال میں تمام اہم مسائل کو کہیں پس پشت ڈال کر لوگوں میں قوم پرستی کے سرٹیفیکٹ بانٹنے اور ملک کو ایک شخصیت کے اطراف جمع کرنے میں میڈیا نے انتہائی سرگرم رول ادا کیا تھا ۔ یہ میڈیا کی ذمہ داریوں سے فرار رہا ہے اور نت نئے انداز سے حکومتوں کی چاپلوسی میں میڈیا نے اپنا اور قوم کا وقت ضائع کیا ہے ۔
اب جبکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے چند ہفتوں کا وقت باقی رہ گیا ہے میڈیا کے کچھ گوشوں کی جانب سے ایک بار پھر شخصیت پرستی کا عمل تیز ہوگیا ہے ۔ کہیں کہا جار ہا ہے کہ وزارت عظمی کیلئے صرف ایک شخصیت ہی ملک بھر میں مقبولیت رکھتی ہے تو کہیں کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں وزارت عظمی کا کوئی امیدوار ہی نہیں ہے اور جتنے چہرے ہیں اتنی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک پارلیمانی جمہوریت پر چلتا ہے ۔ یہاں ملک کے عوام وزیر اعظم کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے رکن پارلیمنٹ کو منتخب کرتے ہیںاور یہ ارکان جب منتخب ہوجاتے ہیں تو اپنے میں سے کسی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور سونپ دیتے ہیں۔ یہ بھی جوابدہی کے احساس کے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک مقررہ مدت کیلئے کسی کو راجہ بنادیا جائے اور اس کے کسی قول و فعل پر کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا ۔ جو کوئی وزارت عظمی کا تاج پہنتا ہے اس پر سارے ملک اور عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ وہ اپنے ہر کام اور ہر بات کیلئے ملک کے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ۔ جو وعدے اس نے کئے ہوتے ہیں ان کی تکمیل کا پابند ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ رواج عام کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم یا حکومت سے کوئی سوال نہ کرے اور جہاں تک وزیر اعظم کا سوال ہے وہ کسی کا سوال سننے اور کسی سوال کا جواب دینے تک کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو اس ملک کا مطلق العنان حکمران سمجھنے لگے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ میڈیا کی جانب سے انتخابات سے قبل سروے کروائے جاتے ہیں اور ان کی رپورٹس بھی منظر عام پر لائی جاتی ہیں لیکن سروے کرنے کا انداز مختلف ہوا کرتا ہے ۔ عوام کے سامنے حقیقی مسائل ‘ حکومت کے وعدے ‘ ان کی تکمیل کی حقیقت ‘ حکومت کی کارکردگی اور اپوزیشن کے سوال پیش کئے جاتے ہیں۔ دونوں کی کارکردگی کو پیش کرتے ہوئے ان پر عوام کی رائے حاصل کی جاتی ہے لیکن یہاں صورتحال کو اپنے انداز سے بدلنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے سامنے مسائل اور حکومت کی کارکردگی کو پیش کیا جائے ‘ تمام جماعتوں کے مستقبل کے منصوبوں کو پیش کیا جائے اور پھر رائے حاصل کی جائے ۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے اور یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے ۔