عوام پر اثر انداز ہونے کے حربے

زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

عوام پر اثر انداز ہونے کے حربے
ملک میں جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے ہتھکنڈے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ ہر طرح سے کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کو الجھاتے ہوئے کسی نہ کسی طرح کامیابی حاصل کرلی جائے ۔ ملک کا با اثر میڈیا بھی اس معاملہ میں اپنا رول ادا کرنے میں کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا ۔ اس کوشش میں وہ بھی اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔ اب ملک میں ایک طرح کے سروے شروع ہوگئے ہیں جن میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت آئندہ انتخابات میںو زیر اعظم کی حیثیت میں نریندر مودی ہی کو دیکھنا چاہتی ہے اور ان کی مقبولیت کی حدوں کو کوئی چھونے کے موقف میںنہیں ہے ۔ یہ سروے در اصل عوام کے ذہنوں پر ایک رائے کو مسلط کرنے کی کوشش ہیں۔ ماضی میں بھی سروے کئے جاتے رہے ہیں لیکن ماضی میں مسائل کی بنیاد پر عوام کی رائے حاصل کی جاتی تھی اور حکومتوں کی کارکردگی اور اپوزیشن کے رول پر سوال ہوتے تھے ۔ حکومت کے وعدوں کی تکمیل کا جائزہ لیا جاتا ۔ مستقبل کے منصوبوں سے عوام کو واقف کرواتے ہوئے ان سے رائے حاصل کی جاتی ۔ ان سے سوال کیا جاتا کہ وہ حکومت کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں۔ وہ حکومت کی کارکردگی پر کیا رائے رکھتے ہیں لیکن اب سارا انداز ہی میڈیا اپنے انداز سے بدلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں بالواسطہ طور پر ایک رائے مسلط کی جا رہی ہے ۔ یہ تاثر عام کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی شخصیت ایسی ہے جس کیلئے ووٹ دیا جاسکتا ہے اور جس کے ذریعہ ملک کے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ عوام کے سامنے کوئی دوسرا متبادل موجود ہی نہیں ہے ۔ جب عوام کے ذہنوں میں اس طرح کی باتیں بٹھائی جائیں تو ملک میں جمہوریت کے معنی و مفہوم ہی بدل کر رہ جائیں گے ۔ عوام کو جمہوریت میں یہ موقع رہتا ہے کہ وہ اپنے طور پر سوچیں ‘ سمجھیں اور جس کو اپنے اور ملک کیلئے بہتر سمجھیں اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہوئے ایوان پارلیمنٹ تک پہونچائیں۔
تاہم موجودہ حالات میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ میڈیا عوام سے ان کے سوچنے سمجھنے اور اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے حق پر بھی بالواسطہ طور پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور وہ یہ سب کچھ اپنے سیاسی سرپرستوں کو خوش کرنے کیلئے اور ان سے تعلقات میں قربتیں حاصل کرنے کیلئے کر رہا ہے ۔ امتحان میں جو پرچہ سوالات دیا جائیگا اسی کے مطابق جواب تحریر کئے جائیں گے ۔ ا س حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو کچھ بھی سروے ہو رہے ہیں ان میں سوالنامہ ہی تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ان میں حکومتوں کی کارکردگی پر عوام کا ذہن مرکوز ہونے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے ۔ حکومت نے جن وعدوں کو فراموش کردیا یا جن کی تکمیل حکومت نے ضروری نہیں سمجھی اس جانب عوام کی توجہ مبذول ہونے سے روکا جا رہا ہے اور ان کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ جو غلطی انہوں نے گذشتہ انتخابات میں کی تھی اب بھی وہی غلطی دہرانے کے سوا ان کے سامنے کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا ہے ۔ یہ میڈیا کا کام نہیں ہے بلکہ یہ پیشہ صحافت کے مروجہ اقدار اور اصولوں کے مغائر ہے ۔ یہ تشہیری اور کارپوریٹ تجارتی حربہ ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو ماؤف کرتے ہوئے یا ان پر ایک رائے مسلط کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس کی ہندوستان میں ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ماضی کے سروے اور اوپینین پول بالکل ہی مختلف ہوتے ۔
آج ملک کے سامنے بے طرح مسائل ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت خود تو توجہ دینے کو تیار نہیں ہے اور وہ اپنے زر خرید میڈیا کے ذریعہ خود عوام کی توجہ بھی ان مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ میڈیا کو سماج میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی سرپرستوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ملک کا اور ملک کے مفادات کا کیا نقصان کر رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں سے جمہوریت کو استحکام مل رہا ہے یا جمہوریت کمز ور ہو رہی ہے۔ عوام کو اور ملک کو درپیش مسائل کی یکسوئی میں ان کی کوششیں معاون ہو رہی ہیں یا پھر ان مسائل کو مزید پیچیدہ ہونے کا موقع مل رہا ہے ۔ بہتر ہے کہ میڈیا اس معاملہ میں اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور سیاسی سرپرستوںکو خوش کرنا بند کرے ۔