عوام بیزار حکومت

عوام بیزار حکومت
مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی کارکردگی کے خلاف عوام کے اندر برہمی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ حکومت نے گذشتہ ساڑھے چار سال میں غریب عوام کی بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔ کسان بھی اس حکومت سے پریشان ہیں۔ آج ملک کے ہر کونے سے مودی حکومت کے خلاف ناراضگی کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ عام آدمی سے لیکر سماجی کارکنوں، سیاسی قائدین نے حکومت کی نااہلی کو شدت سے نوٹ کیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہیکہ اس حکومت نے ایک پائی کا کام نہیں کیا ہے۔ ایک واحد بڑا قدم بھی نہیں اٹھایا ہے۔ کسانوں نے دہلی میںایک سے زائد مرتبہ حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ نوٹ بندی نے ملک کی معیشت کو بری طرح تباہ کردیا۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود مودی حکومت اپنی کارکردگی اور معاشی ترقی کے گن گا رہی ہے۔ ملک بھر سے دارالحکومت دہلی میں جمع ہونے والے ہزاروں کسانوں نے بھی مودی حکومت کی سلسلہ وار وعدہ خلافیوں کی نشاندہی کی ہے۔ مودی حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے موافق کارپوریٹ ادارے پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ غریبوں پر نوٹ بندی، مہنگائی، جی ایس ٹی کا بوجھ ڈال کر امیروں کو فائدہ پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ 2014ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کی انتخابی مہم میں بلندبانگ دعوے کئے گئے تھے، بے زمین کسانوں کو زمین دینے کے وعدہ سے منحرف ہوکر حکومت نے کسانوں، آدی واسیوں کی زمین کو صنعتکاروں کے حوالے کیا۔ کارپوریٹ گھرانوں نے کسانوں کی اراضیات پر اپنی دولت کی عمارتیں کھڑی کردیں۔ آج ملک کا عام شہری جس طرح کی نازک صورتحال سے دوچار ہے اس کے نتیجہ میں لوگ اس حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہورہے ہیں۔ دہلی میں کسانوں کی ریالی اس کا ثبوت ہے۔ ملک کی صورتحال کو نظرانداز کرنے کے نتیجہ میں آج اقتصادی کیفیت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ جی ڈی پی کا گراف ظاہر کررہا ہے کہ حکومت نے معیشت کو کس قدر کمزور کردیا ہے۔ گذشتہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جی ڈی پی کی شرح 8.2 فیصد ہے لیکن آج یہ شرح ایک فیصد گھٹ کر 7.1 فیصد ہوگئی۔ ان ناکامیوں کو پوشیدہ رکھنے کیلئے حکومت نے جو ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں ان سے عوام واقف ہیں۔ حکومت اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرچکی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے باہر نکلنے کیلئے مودی حکومت کو کچھ نہ کچھ کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ملک کی سیاست میں عوام کے حصہ داری کی سطح کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہورہا ہیکہ لوک سبھا انتخابات میں جو نتائج سامنے آئیں گے وہ مودی حکومت کیلئے سبق آموز ہوں گے۔ معاشی امور سے نمٹنے کیلئے اگر مودی حکومت نے اپنی پیشرو منموہن سنگھ حکومت کے مشوروں کو قبول کیا ہوتا تو ہندوستانی عوام کو معاشی پریشانیوں سے بچایا جاسکتا تھا اور خود حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مدد ملتی لیکن اس حکومت نے اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ کر صرف چند کارپوریٹ اداروں کی سنی، اس طرفداری اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں نے آج ملک کے عوام کو مختلف معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ ہندوستانی عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنا مودی حکومت کی بنیادی اور ابتدائی ذمہ داری ہے لیکن عوام نے ان ساڑھے چار سال میں حکومت کی جانب سے ایک ایسی پالیسی بھی نہیں دیکھی جس سے یقین کیا جاسکے کہ معاشی صورتحال مستحکم ہوگی۔ مرکز کی این ڈی اے بی جے پی زیرقیادت حکومت کی کارکردگی سے عوام کو جن حالات کا سامنا ہے یہ چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی آنے کے باوجود ہندوستان میں پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پکوان گیس سلنڈر کی قیمت فی سلنڈر 1000 روپئے ہوگئی ہے۔ عوام کو اپنی ناقص پالیسیوں سے متاثر کرنے والے وزیراعظم مودی اپنی ناامیدی کو چھپانے کیلئے خود کو سیاست کا زخم خوردہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ ان کا عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا حربہ ہے لیکن عوام کی اکثریت کو زیادہ دن تک بیوقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے اس لئے انہیںعوام کی آواز کا احترام کرتے ہوئے ان کے جذبات کو تقدس بخشنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پاکستان کو سیکولر ملک بن جانے کا مشورہ
ہندوستانی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے پاکستان کو ہندوستان کی طرح سیکولر ملک بن کر دوستی کیلئے آگے آنے کا مشورہ دیا۔ جنرل راوت کو یقین ہیکہ سیکولرازم ہی کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی کلید ہے تو سوال یہ اٹھتا ہیکہ سیکولر ہندوستان پر آج جس کی قیادت ہے اس نے ایک سیکولر ملک کے سربراہ کے شایان شان پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ جنرل راوت نے سیکولر ملک کی خصوصیت میں ہندوستان کے سیکولر کردار کو بلند و بالا متصورکیاہے تو اس سیکولر ملک پر حکومت کرنے والے قائدین کو سیکولرازم کے جذبہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ایک سیکولر کردار کے ملک کو پڑوسی ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب ہندوستان سیکولر ملک ہونے کے باوجود پڑوسی ملک پاکستان کے وزیراعظم عمران خاں کی جانب سے اٹھائے جانے والے دوستی کے قدم پر منفی ردعمل ظاہر کیا جائے تو پھر سیکولر ہونے کا مشورہ دینے والے جنرل راوت کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک کی حکمراں قیادت کو بھی سیکولر کا درس دے کر سیکولرازم کی بقاء کو یقینی بنائیں۔ پاکستان کو اسلامی ملک کی شناخت سے نکل کر سیکولر ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے تو خود ہندوستان میں سیکولرازم کو کس حد تک مضبوط بنایا گیا ہے، محاسبہ کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ جنرل راوت کا جذبہ اور ہندوستانی سیکولرازم کی بنیادوں پر ان کا کامل یقین ایک فوجی سربراہ کے احساسات کا مظہر ہے مگر افسوس اس بات کا ہیکہ ملک کے اندر ایسا ماحول پیدا کردیا جارہا ہے جہاں سیکولرازم کی روح سسک رہی ہے۔

بات ایسی کی زخم بھر جائے
ضرب ایسی کی سانپ مر جائے