عمومی آزمائش کے وقت ملت کی صحیح رہنمائی علماء اسلام کیلئے کٹھن مرحلہ

اسلام کے نظریۂ خلافت و امامت پر اہلسنت والجماعت اور شیعہ میں اختلاف رہا ہے۔ شیعہ حضرات امامت و خلافت کو دین کے اصول میں شمار کرتے ہیں جبکہ اہلسنت والجماعت کے نزدیک یہ فقہ اسلامی کا جزوی مسئلہ ہے ، ابواب فقہ کا ایک اہم و نازک باب ہے نیز شیعہ حضرات امام اور خلیفہ کے لئے معصوم ہونے کی شرط رکھتے ہیں ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ امامت و خلافت درحقیقت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی نیابت اور جانشینی ہے اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ و سلم معصوم ہیں تو اُمت کا جو بھی امام ہوگا وہ معصوم ہی ہوگا ۔ اس کے برخلاف اہلسنت والجماعت کے نزدیک امام و خلیفہ کے لئے معصوم ہونا شرط نہیں ہے۔ بہرکیف خلافت و امامت یا اسلامی سیاست فقہ اسلامی کا ایک نازک و پیچیدہ مسئلہ ہے کہ خلیفہ وامیر کون ہوگا ؟ اس کے صفات کیا ہوں گے ؟ حکومت کس طرز پر کی جائیگی ؟ اہل ذمہ کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا ؟ معیشت کے استحکام کے کیا اصول ہوں گے ؟ جنگ اور قیدیوں کے کیا احکام ہوں گے ؟ نظامِ حکومت کس طریقہ پر چلایا جائیگا ؟ بغاوت کاحق ہوگا یا نہیں ؟
یہ ایسے مسائل ہیں کہ عوام تو عوام خواص اور علماء بھی اس میں حیران و ششدر ہیں اس لئے فقھاء متقدمین نے اس خصوص میں توجہہ کی اور ہر وقت میں امراء وزراء اور شاہان وقت کی رہنمائی کے لئے کتابیں لکھیں۔ اس فن میں سب سے اہم اور قدیم کتاب حضرت اما م اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد خاص حضرت امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم کی کتاب ’’الخراج‘‘ سمجھی جاتی ہے جس کو امام ابویوسف نے ہارون رشید کے مطالبہ پر تصنیف فرمایا تھاجس کے آغاز میں مؤلف کتاب نے ہارون رشید کو سیاسی اُمور سے متعلق جامع و معنی خیز نصیحت فرمائی ہے ۔ علاوہ ازیں اس فن میں حسب ذیل کتابوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔

۱۔ السیرالکبیر تالیف و امام محمد بن حسن الشیبانی (۱۸۹ھ )
۲۔ کتاب ’’الخراج‘‘ تالیف : فقیہ یحییٰ بن آدم القرشی (۲۰۳ ھ )
۳۔ کتاب ’’الاموال ‘‘ تالیف : ابوعبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ)
۴۔ کتاب الخراج : تالیف : عبدالملک الاصمعی (۲۱۶ھ)
۵۔ الامامۃ والسیاسۃ تالیف :
ابن قتیبہ دینوری (۲۷۶ھ)
۶۔ الاحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ تالیف قاضی ابوالحسن علی الماوردی الشافعی (۴۵۰ھ )
اس کتاب کو بڑی شہرت اور قبولیت حاصل ہوئی ۔

ہر صدی ہجری میں اس ضمن میں بڑی تفصیلی کتابیں لکھی گئیں ہیں اس کے باوصف یہ ایک پیچیدہ مسئلہ بلکہ عقدۂ لاینحل ہی رہاہے ۔
اکیسویں صدی میں سائنس کی محیرالعقول ترقی کے سبب معاشی ، اقتصادی ، معاشرتی ، طبی و عائلی اُمور میں کئی ایک انقلابات آئے ، اس کے باوصف اس اُمت کے بااثر علماء نے ہرمیدان میں اہل اسلام کی رہنمائی کی اور ہر نئے مسئلہ کا فقہ اسلامی کی روشنی میں حل تلاش کیا اور بعد تحقیق و تفیش اُمت اسلامیہ کے سامنے اپنی تحقیقات کو پیش کیا لیکن جب مسئلہ شرعی سیاست اور اسلامی خلافت کا آتا ہے تو اس راہ میں اجلۂ علماء کے قدم لڑکھڑاگئے اور ملت کی بروقت صحیح رہنمائی تو کجا وہ خود تقسیم ہوگئے اور ملت کو اس کی عظیم قیمت چکانی پڑی ۔ مثال کے طورپر مصر میں جب عبدالفتاح السیسی نے منتخبہ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور سینکڑوں احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائیں گئی احتجاج کرنے والے مسلمان انتقال کرگئے۔ یہ اُمت کے لئے ایک نازک وقت تھا آیا سیسی کا یہ انقلاب ازروئے شرع درست تھا یا نہیں ؟ ازھر شریف کے علماء نے اس کی حمایت کی اور یوسف القرضاوی و دیگر بڑے علماء نے اس کے خلاف کہا۔ اسی طرح ملک شام میں جب بشارالاسد کے خلاف بغاوت ہوئی تو کئی ایک مقامی و غیرمقامی علماء نے اس بغاوت کی حمایت کی اور عوام کو ظالم حکومت کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ترغیب دلائی جبکہ کئی اجلۂ علماء نے حکومت کا ساتھ دیا اور بغاوت سے باز آنے کی ترغیب دی۔ ان میں سرفہرست عالم اسلام کے عظیم محقق محمد سعید رمضان البوطی ہیں جنھوں نے شام کی عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت سے منع کیا اور اس کے مضر و ہولناک نتائج سے اگاہ کیا ۔ ملک شام اور عالم اسلام کے اکثر علماء نے اس عالم جلیل کے موقف سے اختلاف کیا ۔ بالآخر وہ اپنی مسجد میں درس کے دوران ایک بم دھماکہ میں شہید ہوگئے۔

الغرض فتنہ کے وقت اُمت اسلامیہ کی صحیح رہنمائی کرنا یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور فقہ اسلامی کے اس ادنیٰ سے طالب علم کو عصر حاضر میں علم کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ پر علماء کرام کی غیرمعمولی تحقیقات نظر آئیں۔ لیکن جب اُمت انتشار کے وقت علماء کی طرف فریاد رسی کے لئے اُمید بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے تو علماء کرام قوم کی صحیح رہنمائی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ فقہ اسلامی کا ایسا باب ہے جس کی عملی تطبیق میں علماء کی گرفت نہایت کمزور ہے ۔ جب ملک شام پورا تباہ ہوگیا تب موافق و مخالف سب شیخ محمد سعید رمضان البوطی کے موقف کو درست قرار دینے لگے ۔ احقر کی نگاہ میں یہی وہ واحد عالم ربانی نظر آیا جس نے اُمت اسلامیہ کی بروقت صحیح رہنمائی کی گرچہ اُن کے موقف کو اختیار نہیں کیا گیا لیکن انھوں نے ایک بہترین نمونہ چھوڑا اور ثابت کیا کہ اس دور میں ایسے کٹھن حالات میں بھی دورس علماء موجود رہے ہیں جن کی نگاہیں مسئلہ کی حقیقت اور نتیجہ و انجام تک پہنچتی ہیں۔