عمل کا دارومدار نیت پر ہے

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی

آج عورتیں گھر کی صفائی اس نیت سے کرتی ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے، یہ عورت تو بہت گندی ہے اور اسے تو گھریلو زندگی کا سلیقہ ہی نہیں ہے‘‘۔ جب عورت اس نیت کے ساتھ گھر کو صاف ستھرا رکھے گی تو اسے ذرہ برابر ثواب نہیں ملے گا، اس لئے کہ اس نے یہ کام لوگوںکو دِکھانے کے لئے کیا ہے۔ نیت ٹھیک کرنا، ایک مستقل مسئلہ ہے۔ دراصل آج عورتوں کو نیت ٹھیک کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا کہ کس نیت کے ساتھ انھیں صفائی کرنا ہے۔ یاد رکھیں کہ نیت ٹھیک ہوگی تو ثواب ملے گا اور اگر نیت ٹھیک نہیں ہوئی تو ثواب نہیں ملے گا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی گھر بنائے اور اپنے کمرے کے اندر کھڑکی لگوائے یا روشن دان بنوائے، مگر نیت یہ ہو کہ مجھے اس میں سے ہوا آئے گی اور روشنی آئے گی، اب اس آدمی کو ہوا اور روشنی تو ملے گی، مگر ثواب ہرگز نہیں ملے گا۔ جب کہ ایک دوسرا شخص اپنے کمرے میں کھڑکی یا روشن دان اس نیت سے لگواتا ہے کہ اس کھڑکی یا روشن دان سے ہمیں اذان کی آواز سنائی دے گی۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس شخص کی اس نیت کی وجہ سے اس کو اجر و ثواب ملے گا اور ہوا و روشنی اس کو مفت میں مل جائے گی۔

اسی طرح ایک عورت کو سالن بنانے کے دوران صرف یہ خیال آیا کہ تھوڑا سا شوربا بڑھا دیا جائے، تاکہ اگر کوئی مہمان آجائے یا کسی پڑوسی کو کھانا دینا پڑجائے تو سالن میں کمی نہ ہو۔ اس نیت کے ساتھ اگر کسی خاتون نے سالن میں ایک گھونٹ پانی بڑھا دیا، خواہ کوئی مہمان آئے یا نہ آئے، مگر اس نے مہمان کا کھانا پکانے کا ثواب حاصل کرلیا۔ تاہم آج کی عورتیں دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ان ثوابوں سے محروم رہ جاتی ہیں، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’علم کا طلب کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ یعنی عورتوں پر بھی فرض ہے کہ وہ دین کا عالم حاصل کریں، تاکہ اس قسم کے ثواب سے محروم نہ رہیں۔ مگر آج ہماری خواتین علم دین سے اتنی دور ہیں کہ انھیں غسل کے فرائض تک کا صحیح علم نہیں ہے۔ لہذا خواتین جب گھر کی صفائی کریں تو یہ نہ سوچیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ بلکہ ان کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور صاف ستھرا رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ توبہ کرنے سے دل کی صفائی ہوتی ہے اور صاف ستھرا رہنے سے باہر کی صفائی ہوتی ہے، گویا جو آدمی باہر کی صفائی کرے گا اس سے بھی اللہ راضی ہوتا ہے اور جو دل کی صفائی کرے گا اس سے بھی اللہ تعالی راضی ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’صفائی آدھا ایمان ہے‘‘۔ لہذا خواتین اپنے دل میں یہ نیت کرلیا کریں کہ گھر کی صفائی اس لئے کی جا رہی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پاکیزگی آدھا ایمان ہے‘‘ اور پاکیزہ و صاف رہنے والوں سے اللہ تعالی محبت فرماتا ہے۔ اب اگر خواتین اس نیت کے ساتھ اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھیں، گھر کے فرنیچر اور برتنوں کو چمکائیں اور کپڑوں کو دھو دھوکر رکھیں تو ان کو ہر ہر کام پر اجر و ثواب عطا کیا جائے گا، کیونکہ اب ان کی نیت ٹھیک ہوچکی ہے اور انھیں یہ سارا کام اللہ تعالی کی رضا کے لئے کیا ہے۔

غور کیجئے وہ کونسی بیٹی ہوگی، جس کی شادی ہو اور واپس اپنے ماں باپ سے ملنے کے لئے نہ آئے۔ سبھی بیٹیاں آتی ہیں، مگر ان کی نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ ’’امی سے ملنے جا رہی ہوں‘‘۔ ان کی یہ نیت نہیں ہوتی کہ ’’اس عمل سے اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوتی ہے‘‘۔ حدیث پاک میں ہے کہ ’’جس بچی کی شادی ہو جائے اور وہ اپنے ماں باپ کی زیارت کی نیت کرلے کہ میں اپنے والدین سے ملنے جا رہی ہوں اور خاوند سے اجازت لے کر جائے اور دل میں یہ ہو کہ اس عمل سے اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوگی تو اللہ تعالی ہر قدم پر اس کو سو نیکیاں عطا فرمائے گا، سو گناہ معاف فرمائے گا اور جنت میں سو درجے بلند فرمائے گا‘‘۔ حدیث پاک میں یہ بھی ہے کہ ’’اگر یہ ماں باپ کے پاس آئی اور ان کے چہرے پر محبت کی نظر ڈالی، جو ماں باپ کو نصیب ہوتی ہے تو اللہ تعالی ہر نظر ڈالنے پر اس کو ایک حج یا عمرہ کا ثواب عطا فرمائے گا‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بار بار محبت اور عقیدت کی نظر سے دیکھے تو؟‘‘۔ اللہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جتنی بار دیکھے گا اتنی بار حج یا عمرہ کا ثواب عطا کیا جائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ یہ باتیں ہمیں معلوم نہیں ہوتیں، اس لئے ہم ان کے اجر و ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔

آج عورتیں مائیں تو بن جاتی ہیں، مگر ان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اولاد کو تربیت کس طرح دینی ہے۔ یعنی ماں تو بن گئیں، مگر اولاد کی تربیت کا انھیں بالکل پتہ نہیں۔ جب انھوں نے خود ہی تربیت نہیں پائی تو اپنے بچوں کو کیا تربیت دیں گی۔ آج اسی وجہ سے ہمارے ماحول اور معاشرے میں بچوں کی صحیح تربیت نہیں ہوپاتی، جب کہ ایک وقت ایسا تھا کہ مائیں اپنے بچوں کو اچھی تربیت دینے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہا کرتی تھیں۔

ایک وقت تھا کہ سارا دن عورتیں گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی تھیں اور جب رات آتی تو مصلی کے اوپر رات گزاردیا کرتی تھیں۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ سردیوں کی طویل رات تھی، عشاء کی نماز پڑھ کر دو رکعت نفل نماز کی نیت باندھ لی، طبیعت میں ایسا سرور تھا اور ایسی حلاوت نصیب ہوئی کہ تلاوت قرآن کرتی رہیں، پڑھتی رہیں، پڑھتی رہیں، یہاں تک کہ جب آپ نے سلام پھیرا تو فجر کا وقت ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ روکر یہ دعاء کرنے لگیں کہ ’’اے اللہ! تیری راتیں کتنی چھوٹی ہوگئیں کہ میں نے دو رکعت کی نیت باندھی اور تیری رات ختم ہو گئی‘‘۔ یعنی ایک وہ خواتین محترم تھیں کہ جن کو راتوں کے چھوٹے ہونے کا شکوہ تھا اور آج ہماری مائیں اور بہنیں ایسی ہیں کہ انھیں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ (اقتباس)