علیگڑھ مسلم یونیورسٹی

طوفان سا ہے بپا مرے اطراف میں کوئی
ہنگامہ اک نیا مرے گھر ہونے والا ہے
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی
ملک پر بی جے پی کو اقتدار مل چکا ہے تو بے سرو پا گفتار اور بے ہنگم حرکات کا سلسلہ شروع ہوتا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ جن لوگوں نے اس پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہونچایا ہے، انھیں اپنے فیصلہ کے عوض کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا کئی نقصانات ہوں گے۔ بڑا نقصان ملک کی روایتی تہذیب اور ثقافت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور امن میں خلل پیدا کرنے کی سازشیں ہوں گی۔ بی جے پی کے قائدین بے لگام ہوکر دوڑ رہے ہیں۔ ان کا کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ زعفرانی پارٹی کے ہر فرد کو کھلی چھوٹ حاصل ہورہی ہے۔ اب اس نے ملک کی صدی قدیم یونیورسٹی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک تنازعہ میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس یونیورسٹی کو اراضی دینے والے راجہ مہندرا پرتاپ کی جینتی تقریب منانے کی ضد کرتے ہوئے بی جے پی کے چند شرپسند قائدین نے اس علمی درسگاہ کو اپنی فرقہ پرستی کا تختۂ مشق بنانے کی کوشش شروع کی ہے۔ بی جے پی کے ان قائدین کا کہنا ہے کہ ایک مجاہد آزادی راجہ مہندرا پرتاپ نے یونیورسٹی کو اراضی کا عطیہ دیا تھا۔ اس کے جواب میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کو عطیات دینے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور ان تمام کی یوم پیدائش تقاریب منانا یونیورسٹی کے لئے ممکن نہیں اور جہاں تک راجہ مہندرا پرتاپ کی جانب سے عطیہ دیئے جانے کا سوال ہے درحقیقت انھوں نے یونیورسٹی کو یہ اراضی کا ٹکڑا لیز پر دیا تھا۔ یونیورسٹی کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں کبھی کوئی تنازعہ یا انتشار پیدا نہیں کیا گیا۔ لیکن بی جے پی کو مسلمانوں اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں سے شدید دشمنی ہے اس لئے وہ اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو ذہنی طور پر اذیت دینے اور جسمانی و مالی سماجی طور پر نقصان پہونچانے کی سازش میں سرگرم ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو سیاسی تنازعہ کا محور بنانا بی جے پی کے لئے شاندار انتخابی کامیابی کے بعد خسارہ کا سبب بن سکتا ہے۔ عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی سزا کیا ہوسکتی ہے اس پر اگر بی جے پی غور کرے تو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اس وقت ملک کو ترقی کی سمت لے جانا ہے نہ کہ ماضی کو تنازعہ بناکر عوام کے ذہنوں کو مکدر کرنا ہے۔ بی جے پی کے اہم قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو حاصل ہونے والی اس زبردست عوامی حمایت کا احترام کریں۔ ورنہ ایسے بچکانہ اقدام کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کی بھی مہلت نہیں ملے گی۔ نریندر مودی حکومت کو اپنے اطراف موجود ان لوگوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی جو اپنی فرقہ پرستانہ سوچ اور بچکانہ حرکتوں سے قومی سطح پر پارٹی کا خسارہ کرنے جارہے ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تقدس کو نقصان پہونچانے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کو اپنے حدود میں رہنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلہ پر مرکزی فروغ انسانی وسائل کی وزارت کو فوری حرکت میں آنا ہوگا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لکھے گئے مکتوب پر فوری ایکشن لیتے ہوئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطہ میں فرقہ وارانہ بدامنی پیدا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ہندوستان میں تعلیمی اداروں کو فرقہ وارانہ سوچ سے دور رکھنے کے لئے برسوں سے تمام طبقے کے بااثر افراد نے کام کیا ہے۔ تعلیمی اداروں کو مذہبی خطوط سے بالاتر رکھا گیا ہے۔ بی جے پی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حیدرآباد کے فرمانروا حضور نظام نے بھی بنارس ہندو یونیورسٹی کو عطیہ دیا تھا۔ اس بہانے کیا بنارس ہندو یونیورسٹی میں بھی حضور نظام کے یوم پیدائش تقریب کو منانے کی ضد ہونی چاہئے۔ بی جے پی نے راجہ مہندرا پرتاپ کے حوالے سے جو تنازعہ و فرقہ وارانہ ڈرامہ پیدا کیا ہے ان کے پڑپوترے نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ راجہ صاحب ایک نوبل شخص تھے انھوں نے اپنی زندگی میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی مذہبی دائرہ سے ہٹ کر تھیں ان کی خدمات کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن بعض لوگ ان ہندوستانی بزرگوں کی روح کو تکلیف دینے کے لئے اپنی شیطانی روحوں کو پوجا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکمراں پارٹی کو یہ سبق کافی ہے کہ عوام نے بی جے پی کو ترقیاتی ایجنڈہ پر ووٹ دیا ہے۔ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ پر نہیں۔ بی جے پی کے چند قائدین کی حرکتیں ملک کی معیشت پر ایک بوجھ اور سماجی تانے بانے کے لئے شدید خطرہ ہے۔ عوام کو غیر ضروری تنازعات کے ذریعہ صف آراء کرنے کی کوشش فوری ترک کرنی ہوگی۔
ایران کا نیوکلیر پروگرام
ایران کے نیوکلیر پروگرام کو لیکر عالمی طاقتوں خاص کر مغربی ملکوں نے سخت اقدامات سے گریز کرتے ہوئے معاہدے کے لئے مزید مہلت دی ہے۔ امریکہ کے بشمول دیگر 5 ملکوں کے گروپ نے مذاکرات کو ترجیح دی ہے تو ویانا میں ہونے والی ان کی یہ ملاقات غیر مختتم ہی متصور ہوگی۔ ایران کے عظیم رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے ویانا مذاکرات کے تعلق سے واضح کیاکہ مغربی طاقتیں نیوکلیر مسئلہ پر ایران کو گھٹنوں کے بل لانے کے قابل نہیں ہیں۔ ایران کو 24 نومبر تک مہلت دی گئی تھی کہ وہ اپنے نیوکلیر پروگرام کے بارے میں 6 ملکوں کے گروپ سے معاہدہ کرے لیکن جب یہ مہلت ختم ہوگئی تو پیر کے دن ان بڑی عالمی طاقتوں نے مذاکرات کے عمل کو وسعت دینے سے اتفاق کیا۔ مذاکرات کے لئے حائل رکاوٹوں کو جب تک دور نہیں کیا جائے گا، بڑی طاقتوں کو غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش فضول ثابت ہوگی۔ البتہ بات چیت کا عمل جاری رکھا جائے تو جلد یا بدیر کوئی راہ نکلنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اب تک کی کوششوں سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ایران اپنی نیوکلیر صلاحیتوں کے حصول کے حق کو ترک نہیں کرے گا۔ ایران کے نیوکلیر حقوق کو جب ساری دنیا تسلیم کرچکی ہے تو بڑی طاقتوں کو خاص کر امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس اور جرمنی کو ایران کے ساتھ ایک حل طلب یا قابل عمل معاہدہ کرنے میں ڈرامہ بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان 6 بڑی طاقتوں میں سے چند ایک ممالک اسرائیل کی ہمدردی میں اس کے مفادات کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ان کی یہ کوشش یکطرفہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں برقرار رہے تو ایران کے موقف کو تبدیل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ ویانا میں بات چیت کے عمل کو جاری رکھنے سے اتفاق کیا گیا تو اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑی طاقتوں نے ایران کے مفادات کا بھی درپردہ طور پر خیال رکھا ہے۔