علحدگی پسندوں کی سیکوریٹی

کس کی یہ بددعا ہے کہ موسم بدل گئے
اب کے برس بہار میں پھل پھول ، جل گئے
علحدگی پسندوں کی سیکوریٹی
جموں و کشمیر میں پلوامہ واقعہ کے بعد 6 علحدگی پسند قائدین کی سیکوریٹی واپس لینے کا فیصلہ انتظامیہ کا احتیاطی اقدام ہے یا حالات کا تقاضہ ہے ۔ پلوامہ میں سی آر پی ایف جوانوں پر خود کش حملے کی بجلی ان علحدگی پسندوں پر گرائی گئی ہے تو یہ مسئلہ کا حل نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں سے پیدا ہونے والے چھالوں کو پھوڑ دینا ہے ۔ میر واعظ عمر فاروق کے علاوہ عبدالغنی بھٹ اور دیگر کی سیکوریٹی ہٹالی گئی ہے ۔ صدر نیشنل کانفرنس و سابق مرکزی وزیر فاروق عبداللہ نے پلوامہ واقعہ کے بعد کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو سنگین قرار دیا ہے ۔ ان کے مطابق مسئلہ کشمیر کی یکسوئی تک اس طرح کے حملے ہوتے رہیں گے ۔ اس لیے اس تنازعہ کا سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے جو لوگ ذمہ دار ہیں اگر وہی اس مسئلہ کا سیاسی استحصال کریں تو حالات کس طرح بہتر ہوں گے ۔ وادی کشمیر کو گذشتہ دو دہوں سے انسانوں کا مقتل بنانے والے حالات کے لیے کون ذمہ دار ہیں یہ غور کریں تو ان ذمہ داروں میں کئی چہرے نظر آئیں گے مگر ان چہروں کو کوئی نام دینے سے ڈرنے والے بھی کئی چہرے ہیں ۔ اس لیے مسئلہ کشمیر کا حل تعطل کا شکار بنادیا جارہا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلہ کو صرف جنگ کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے تو یہ غلط سوچ ہے ۔ دنیا میں کوئی مسئلہ جنگ سے حل کرنے کی کوشش گویا خود پر خود کش حملہ کرنے کے مترادف ہوگا ۔ آج وادی کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو مذکورہ سطور کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے یعنی کشمیر کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک طرف جو طاقتیں لڑائی کی راہ اختیار کررہی ہیں اور دوسری طرف دوسری طاقت اس لڑائی کو کچلنے کے لیے اپنی طاقت اور مشنری کا استعمال کررہی ہے تو اس سے جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ پلوامہ جیسی شکل میں ہوگا ۔ لہذا کسی مسئلہ کی یکسوئی صرف پرامن طریقہ سے ہی یعنی بات چیت سے ہوسکتا ہے اور اس بات چیت کو ہر دو جانب کی حرکتوں کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے ۔ وادی کشمیر میں ظلم و زیادتیوں کی خبروں سے ہر روز اخبارات کالے اور ٹیلی ویژن چیانل رنگ اچھالتے رہے ہیں مگر حقیقت پر توجہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ ہندوستانی میڈیا کے بعض گوشوں کا جانبدارانہ رول اور حکومت کی کوتاہ ذہنی نے وادی کشمیر کو آگ کی لپیٹ میں گھیر دیا ہے ۔ وادی کشمیر کی صورتحال دن بہ دن نازک بنانے والوں کو کشمیری عوام کی پریشانیاں ، مجبوریاں اور تنہائیاں دکھائی نہ دیں تو یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے ۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے بعد سارا ملک یکلخت ہو کر دہشت گردی کی مذمت کررہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے عوام کے دلوں میں مخالف دہشت گردی آگ کے حوالے سے یہ جملہ دہرایا کہ جو آگ آپ کے دل میں لگی ہے وہی میرے دل میں بھی لگی ہے ۔ یہ سانحہ واقعی انسانی دلوں کو تڑپاتا ہے ۔ مگر 44 سپاہیوں کی جان لینے والے اس واقعہ کے بعد بھی ہوش کے ناخن نہ لیے جائیں تو یہ بہت بڑی کوتاہی ہوگی ۔ مرکز میں موجود حکومت نے گذشتہ پانچ سال کے دوران وادی کشمیر کی صورتحال کو کس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے اسے پلوامہ واقعہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے کئی ناقص پہلو سامنے آئیں گے ۔ دہشت گردوں کے نام پر بے قصور کشمیریوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے تو بقول فاروق عبداللہ مسئلہ کشمیر کی عدم یکسوئی کے نتیجہ میں جو حالات پیدا ہوں گے وہ پلوامہ واقعہ سے بھی بدتر ہوں گے ۔ کسی بھی واقعہ پر بیان بازی اور ہنگامہ آرائی سے زیادہ نظام بہتر بنایا جائے تو انصاف پسندی کے ساتھ پرامن حالات پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ آج جو لوگ وادی کشمیر کے حوالے سے مشتعل ہوئے ہیں چند دنوں بعد خاموش ہوجاتے ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں ، میڈیا کے لوگ اور عام آدمی بھی واقعہ کی سنگینی کو بھول جاتے ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں مسئلہ جوں کا توں موجود رہتا ہے اور کسی اگلے واقعہ کی رونمائی کا موجب بن جاتا ہے ۔ لہذا حکومت کو اپنا دوہرا مزاج ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف علحدگی پسندوں کی سیکوریٹی ختم کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔۔