علاماتِ قیامت

جب آسمان پھٹ جائے گا، اور جب ستارے بکھر جائیں گے، اور جب سمندر بہنے لگیں گے، اور جب قبریں زیر و زبر کردی جائیں گی، (اس وقت) جان لے گا ہر شخص جو (اعمال) اس نے آگے بھیجے تھے اور جو (اثرات) وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ (سورۃ الانفطار۔ ۱تا۵)

قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا، اس میں دراڑیں اور شگاف نمودار ہو جائیں گے۔ ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگیں گے۔ سمندر جو آج ساکن ہیں وہ دریاؤں کی طرح بہنے لگیں گے، وہ غیر مرئی بند جو ایک سمندر کو دوسرے سمندر میں آج خلط ملط نہیں ہونے دیتے، وہ ٹوٹ جائیں گے اور سمندروں کا پانی بہنا شروع ہو جائے گا۔ قبروں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیاجائے گا، ان میں جو لوگ دفن ہیں وہ باہر نکل آئیں گے۔ اس وقت انسان پر اس کے نیک و بد اعمال کی حقیقت آشکارا ہوگی۔ یعنی جو اعمال عبادات اور صدقات اس نے آج کے دن کے لئے پہلے بھیج دیئے تھے، ان کا بھی اسے پتہ چل جائے گا اور جن نیک کاموں کی اس نے بنیاد رکھی تھی، اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جو نیک نتائج مدت دراز تک ان پر مرتب ہوتے رہے، ان سے بھی اسے آگاہ کردیا جائے گا۔ اسی طرح جن برے کاموں کی اس نے تخم ریزی کی تھی، ان سے جو گمراہیاں پھیلیں، اخلاق و کردار میں جو بگاڑ پیدا ہوا، اس کا بوجھ بھی اس کی گردن پر لاد دیا جائے گا۔

ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جن احکام الہیہ کی اس نے تعمیل کی اور جن کی بجاآوری سے وہ پیچھے رہ گیا، ان سب کا اس کو علم ہو جائے گا۔ اس کا یہ بھی مطلب بتایا گیا ہے کہ جو کام اس نے ابتدائی زندگی میں کئے اور جو بعد میں کئے، سب کے سب اس کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔