عقیدئہ توحید بواسطۂ رسالت۔ ایک جائزہ

سید زبیر ہاشمی ، معلم جامعہ نظامیہ

ألحمد ﷲ ، ألحمدﷲ وحْدہ ، والصّلوۃ والسّلام علیٰ من لا نبیَّ بعدہ۔
مالک ارـض و سماں، خالق ِانس و جاں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے ہم پر بے حد و بے حساب احسانات ہیں جس کا ہمیں ہر حال میں شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ اِس طرح سے اگر ہم اپنی کاوش کو جاری و ساری رکھیں گے تو یقینا کامیابی وسرفرازی حاصل ہوجائیگی۔ الغرض ہمیں عقیدئہ توحید کے متعلق معلومات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ آخر اس پر زور کیوں دیا جارہا ہے؟ تو اس کے متعلق آج انشاء اﷲبتلایا جائیگا۔

وحدت، وحدانیت اور توحید کا مفہوم:
عقیدئہ توحید کی پہچان کے لئے ایک بات ہمیشہ پیش نظر رکھنا بے حد ضروری ہے جس کو انشاء اﷲ تعالیٰ قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اسلاف کی تحقیق کے مطابق جو بات بتلائی گئی ہے اسکو آپ کے مطالعہ میں اـضافہ کے خاطر تحریر کیا جارہا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ایک ہیں اس کے متعلق تین الفاظ بہت ہی اہم ہیں اور وہ یہ ہیں:

{۱} وحدت {۲} وحدانیت {۳} توحید
یہاں ہر ایک کی مختصر تشریح لکھی جارہی ہے بغور ملاحظہ ہو:
{۱} وحدت۔ اکائی کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدت، وحدت ِمطلقہ کہلاتی ہے۔
{۲} وحدانیت۔ اﷲ رب العزت کے ایک ہونے کا تصور جب نظریہ، فکر اور فلسفہ میں ڈھل جاتا ہے تو اُسے ’وحدانیت‘ کہا جاتا ہے۔

{۳} توحید۔ نظریہ اور تصور سے بڑھ کر ایک عقیدہ ہے مگر اس کے باوجود یہ اُس وقت تک ایمان نہیں بن سکتا جب تک کہ اُس کا حصول واسطۂ رسالت سے نہ ہو۔ واسطۂ رسالت سے اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو ایک ماننا ہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان بنتا ہے اور ہم اُسی کو عقیدئہ توحید کہتے ہیں۔ {از: عقیدئہ توحید}

وحدت اور توحید میں فرق= مالک انس و جاں اﷲسبحانہ و تعالیٰ کا ایک ہونا تصور وحدت ہے۔ اگر زبانِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطے کے بغیر اپنی عقل، سمجھ اور فہم سے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کو ایک جانا و مانا جائے تو یہ تصور، تصورِ وحدت ہے اور رسول پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے سن کر اﷲ تعالیٰ کو ایک مانا جائے تو یہ عقیدئہ توحید ہے۔ اسی لئے سورئہ اخلاص میں فرمایا گیا ہے قل ھو اﷲ أحد ترجمہ ’’ اے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم آپ فرمادیجیے وہ اﷲ تعالیٰ ہے جو یکتا ہے‘‘۔

مولائے ذوالجلال مذکورہ ان الفاظ مبارکہ سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اے میرے پیارے حبیب حضور علیہ التحیۃ والثناء ! ویسے تو سمجھنے والے اپنے فہم سے مجھے ایک جانتے رہیں گے لیکن آپ اپنی زبان سے فرمادیں کہ میں ایک ہوں تو ان کا جاننا ان کو ایمان کی نعمت عطا کردیگا۔ سننے والے آپ کی زبان سے سن کر اور آپ کی بات کو مان کر مجھے ایک مانیں اور ایک جانیں گے تو ان کی وحدت، توحید میں بدل جائے گی۔

اب یہ یہاں یہ بات بڑی اچھی طرح سے واضح ہوگئی ہے کہ اگر انسان نے اپنے ذاتی علم، تجزیئے، استدلال، مشاہدے، تجربے، فلسفئہ علم اور سائنسی علم پر بھروسہ کرکے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کو ایک مانا اور جاناتو یہ سوچ، نظریہ اور فلسفہ رہا اور اگر پیغمبر کی خبر پر پیغمبر کی زبان پر بِن دیکھے مولائے کل اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو ایک مانا اور جانا تو اُس کا یہ ماننا اور جاننا عقیدئہ توحید اور ایمان بن گیا۔جب آقائے دوجہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کے نبی ہونے کے ناطے اور رسول ہونے کے ناطے یہ کہا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے۔ گویا ایک شخص نے اﷲ تعالیٰ کے متعلق رسول کے بتلانے پر ایک جان لیا، مان لیا اور یقین کرلیا تو اُس کا عقیدئہ توحید وجود میں آگیا۔ اس طرح سے اﷲ تعالیٰ کو ایک جاننا اور ماننا توحید اور ایمان بن گیا۔

جب تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کو ایک جاننے اور ماننے کے علم میں واسطہ اور وسیلہ نہیں بنے تب تک وہ علم محض ایک تصور تھا، عقیدئہ توحید نہیں تھا۔ فلسفہ تھا ایمان نہیں تھا۔ فلسفہ سے ترقی پاکر ایمان تب بنا جب اس علم کو وسیلۂ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم نصیب ہوا۔ گویا عقیدئہ توحید کا اثبات وسیلۂ رسالت سے ہوتا ہے۔ اِس طرح عقیدئہ توحید ایک ایسی مسلمہ حقیقت بن گیا کہ دنیا کی کوئی قوت اس کو رد نہیں کرسکتی۔

توحید کے اقرار سے پہلے رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اقرار ضروری= اصح الکتب بعد کتاب اﷲ یعنی بخاری شریف میں ایک آیت کریمہ وأنذر عشیرتک الأقربین ترجمہ ’’اور اے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے‘‘ {سورۃ الشعراء، آیت ۲۱۴} اس آیت کے شان نزول میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خاندانِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لوگوں کو جمع کیا گیا اور فرمایا گیا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے جو تم پر حملہ کردیگا تو کیا تم میری اس بات کو مان لوگے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان والوں نے کہا جی ہاں! ہم مان لیں گے۔

گویا آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صداقت کا اعلان ِاقرار توحید سے پہلے کرادیا تاکہ انکار کرنے والوں کے لئے ایک حجت قائم ہوجائے۔ پھر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: کیسے مان لوگے؟ تم لوگوں نے تو اُس لشکر کو نہیں دیکھا ؟ تو وہ کہنے لگے کہ آپ بالکل سچے ہیں کبھی بھی جھوٹ بات نہیں کی، اِس وجہ سے آپ پر ہمارا کبھی ختم نہ ہونے والا اعتماد ہے اس لئے آپ جو کچھ بھی فرمائیں گے ہم اُس کو مان لیں گے۔

اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مجھ پر واقعی اعتماد رکھتے ہو تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے، اور اُسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اس کی وحدانیت اور ایک ہونے پر ایمان لے آؤ، اقرار کرلو۔ اب جو لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات کو مان لئے وہ ایمان والے ہوگئے اور جو نہ مانے وہ کافر ہوگئے۔
.com zubairhashmi7@gmail