عقل مند سوداگر

ملک شام کے کسی شہر میں ایک سوداگر رہتا تھا ۔ وہ بہت شریف آدمی تھا ۔ اسے تجارت کی غرض سے دور دراز سفر پر جانا پڑتا تھا ۔ ایک دفعہ وہ طویل سفر پر روانہ ہورہا تھا ۔ اس لئے اس نے اپنا سونا ایک دوست کے پاس بطور امانت رکھ دیا ۔ سوداگر نے اپنے دوست سے کہا کہ سفر سے واپس آکر اپنا سونا لے جاؤں گا ۔ جب وہ سفر سے واپس آیا تو اس نے اپنے دوست سے امانت طلب کی لیکن اتنا زیادہ سونا دیکھ کر اس کے دوست کی نیت بدل چکی تھی ۔ اصل میں وہ سونا ہتھیانا چاہتا تھا ۔ اس لئے اس نے جھوٹ بولا کہ تمہارا سونا تو چوہے کھاگئے ہیں ۔ دوست کی بات سن کر سوداگر حیران ہوا کہ بھلا چوہے سونا کیوں کر کھاسکتے ہیں ۔ اسے اپنے نقصان کا بہت دکھ ہوا لیکن وہ خاموش رہا اور اس نے کوئی بات نہیں کی ۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔ سوداگر نے سوچا کہ اس بدیانت سے کسی نہ کسی طرح انتقام لیا جائے ۔

کچھ دنوں بعد سوداگر نے اپنے دوست کو بیوی بچوں سمیت اپنے ہاں دعوت پر بلایا۔ دعوت کے دوران سوداگر نے آنکھ بچاکر اپنے دوست کے ننھے بچے کو کہیں چھپادیا ۔ جب مہمان رخصت ہونے لگے تو اپنے بچے کو غائب پایا ۔ بچے کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا ۔ اس نے سوداگر سے پوچھا ۔ میرا بچہ کہاں گیا ؟ سوداگر نے کہا ابھی ابھی میں نے دیکھا ہے کہ اسے ایک چیل اٹھائے جارہی تھی ۔ سوداگر کی بات سن کر مہمان دوست سٹپٹایا اور بولا کیا کبھی چیل بچے کو اٹھاکر لے جاسکتی ہے ؟ اس پر سوداگر نے جواب دیا جس شہر میں چوہے سونا کھاسکتے ہیں وہاں چیلیں بھی بچوں کو اٹھاکر لے جاسکتی ہیں ۔ اس پر بدیانت دوست بہت شرمندہ ہوا ۔ اس نے اپنے دوست سے معافی مانگی اور اسے اس کا سونا واپس کردیا ۔ اس طرح سوداگر نے بھی اسے اس کا بچہ واپس کردیا ۔ سوداگر نے آئندہ ایسے بددیانت لوگوں کی دوستی سے توبہ کرلی ۔