عظیم اتحاد کے تقاضے

تلنگانہ میں کانگریس زیر قیادت عظیم اتحاد کے اقتدار حاصل کرنے پر تلنگانہ عوام کو لاحق خطرات سے واقف کروانے والے ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی انتخابی مہم کے ذریعہ عوام پر یہ ظاہر کرنا شروع کیا ہے کہ اس اتحاد سے سب سے زیادہ وہ متفکر ہیں ۔ اب آگے چل کر جو سیاسی چال چلی جائے گی وہ نہایت ہی بری ہوسکتی ہے ۔ تلنگانہ میں عظیم اتحاد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کانگریس ۔ تلگو دیشم نے باہم ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر جھوٹ کا چرچا کرتے ہوئے کے سی آر نے سیاسی سچ کو ایسا مریض بنانے کی کوشش کی ہے جو لا علاج ہے ۔ کے سی آر نے عوام کو باخبر کرنے کی کوشش کی کہ کانگریس اتحاد کے ذریعہ تلنگانہ پھر سے چندرا بابو نائیڈو کے حوالے کیا گیا تو وہ ریاست سے اہم آبپاشی پراجکٹس کو روک دیں گے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے چیف منسٹر آندھرا پردیش کی حیثیت سے مرکز کو 30 مکتوبات لکھ کر پلمیرو لفٹ اریگیشن پراجکٹ کی مخالفت کی تھی اس پراجکٹ سے تلنگانہ کے اضلاع محبوب نگر اور رنگاریڈی کی اراضیات سیراب ہوں گی ۔ ٹی آر ایس قائدین کا احساس یہی ہے کہ اگر عوام نے انہیں مسترد کردیا تو وہ اس ریاست کے وسائل پر اپنے راج اور تسلط سے ہی محروم ہوں گے ۔ ٹی آر ایس کے تعلق سے عام تاثر یہ پیدا ہورہا ہے کہ اس نے ریاست تلنگانہ کے حصول کا معاوضہ حاصل کرنے کی نیت سے اس کے وسائل کو عوام کے فوائد سے زیادہ اپنے قائدین کی بہبود کے لیے استعمال کیا ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ٹی آر ایس کی حکمرانی میں ہونے والی خرابیوں اور دھاندلیوں کی نشاندہی کر کے ہی اتحاد کو ترجیح دی ہے تاکہ اس ریاست کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والے ٹی آر ایس قائدین کو بے دخل کر کے تلنگانہ عوام کو راحت پہونچائی جائے ۔ اب ٹی آر ایس قائدین کو اپنے حالات سے یوں لگنے لگا ہے کہ ریاست کے بے روزگار نوجوانوں اور حصول تلنگانہ میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کی بد دعاؤں کا سامنا ہے ۔ اقتدار کی بے تاب آرزو میں ٹی آر ایس کو یہ فرض یاد نہیں رہا کہ اس نے جو وعدہ کر کے ووٹ لیے تھے انہیں پورا کرنا اس کا فرض ہے ۔ تلنگانہ کے بے روزگار نوجوانوں نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اپنا مسیحا سمجھا تھا آج انہیں اس غلطی کا احساس ہورہا ہے تو وہ رائے دہی کے دن اپنے فیصلہ سے پارٹی کو سبق سکھاسکتے ہیں ۔ عوام کے ووٹ ملنا بھی ایک آزمائش ہوتی ہے کہ لیڈر نے ان کے ووٹوں پر شکر کیا یا نہ شکری کی ۔ اپنی خامیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے اگر ٹی آر ایس عظیم اتحاد کی عیب جوئی میں مصروف رہے گی اور گھر گھر مہم چلانے کے دوران حکومت کی پالیسیوں اور کارناموں سے عوام کو واقف کروانے سے زیادہ عظیم اتحاد کے خلاف بول کر عوام کو گمراہ کیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ اس کا اُلٹا اثر ہوجائے ۔ عوام اب چار سال کے دوران پہلے سے زیادہ ہوشیار اور محتاط ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تلنگانہ میں کانگریس زیر قیادت عظیم اتحاد کے بارے میں وقت سے پہلے ہی ٹی آر ایس نے اپنی خوف زدگی کا اظہار کرنا شروع کیا ہے جب کہ اس اتحاد کے بارے میں ابھی کوئی واضح صورت سامنے نہیں آئی ۔ اتحاد کے اندر نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ ہنوز طئے نہیں ہوا ہے ۔ کانگریس اور تلگو دیشم کو اپنی اپنی سیاسی ساکھ و قوت پر اعتبار ہے تو انہیں اتحاد کی کوششوں کو قطعیت دینے میں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ اگر یہ اتحاد نہ بھی ہو تو مابعد انتخابات رونما ہونے والی صورتحال کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو اتحاد کا راستہ مل جائے گا ۔ ٹی آر ایس کو یہ یقین ہے کہ اسے 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی ملے گی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسے یقین ہے تو وہ عظیم اتحاد سے خوف زدہ کیوں ہے ؟ کانگریس کو البتہ اپنی حکمت عملی اور عظیم اتحاد کے تقاضوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی ۔ تمام چھوٹی پارٹیوں نے کانگریس سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اتحاد کو یقینی بنانے کیلئے کچھ ’ قربانیاں ‘ دینے کیلئے تیار رہے مگر کانگریس کو اپنی سیاسی طاقت کا احساس ہے اس لیے وہ حلیف پارٹیوں میں نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر اپنا موقف سخت بنائے رکھا ہے ۔ اس نے تلنگانہ جناسینا کو 7 ، سی پی آئی کو 4 ، اور تلگو دیشم کو 12 نشستیں دینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن حصول اقتدار کی آرزو کیلئے دانشمندی کا مظاہرہ بھی کرنا ضروری ہوتا ہے ۔۔