عشرئہ آخرہ ۔ دعوت غوروفکر

رمضانِ پاک کا مبارک مہینہ اپنی بے پناہ رحمتوں کا پیام لئے ہوئے ہمارے درمیان آیا اور اب رخصت ہونے کو ہے، رمضان پاک کے روزوں کا مقصود تو تقویٰ و پرہیزگاری تھا،کتنے اللہ کے بندے ہونگے جنہوں نے روزہ رکھ کر یہ مقصد حاصل کیا ہوگا، تقویٰ، خوف الٰہی و خوف آخرت ہی دراصل روزہ کی روح ہے، قرب خداوندی کی تحصیل میں روزہ کو اکسیر کی حیثیت حاصل ہے، ماہ رمضان اپنی رحمتوں کی جلو میں انسانی تربیت کا ایک پیغام لایا تھا جس پر عمل سے پورے سماج میں نیکی وصالحیت کی فضا سے نکھار لایا جاسکتا ہے، رمضان المبارک کی حد تک مسلم سماج کے اکثر گوشوں میں ایک اچھی تبدیلی ضرور محسوس کی جاتی ہے، اس تبدیلی اوررمضان المبارک سے حاصل ہونے والی روحانی فضا کو رمضان کے ساتھ رخصت نہیں کیاجانا چاہئے، ورنہ رمضان کے روزے اورشب وروزکی جانے والی عبادتیں ایک رسمی چیز بن کر رہ جائیں گے، اللہ سبحانہ اعمال کے ظواہر کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کی روح اور جان اللہ سبحانہ کو مطلوب ہوتی ہے۔ معاشرہ کے سارے افراداس کوزندگی کا نصب العین بنالیں۔یہ مہینہ آپسی غمخواری، ہمدردی، دلجوئی اور نصح و خیرخواہی کا مہینہ بن کر آیا تھا، روزہ کے ذریعہ صبروبرداشت اور تحمل کا پیغام دیاگیا تھا، عفوودرگزر، اعراض و چشم پوشی، کسی نادان سے سابقہ پڑنے پر ’’میں تو روزہ دار ہوں‘‘ کہہ کر دامن بچانے کا درس ملا تھا، نیکیوں کی طرف مسارعت، خیر کے کاموں کی رغبت و چاہت، دینداری ودین پسندی، خودداری وخداترسی، دنیا جہاں سے بے خوفی اور خدا خوفی کی تعلیم روزہ کے ذریعہ ملی تھی فلا تخافوہم وخافونیکا عملی پیغام اعمال رمضان نے تازہ کردیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ساری روحانی کیفیات روزہ کی وجہ کس حد تک ہمارے جسم و جان کا اور ہماری عملی زندگی کا حصہ بن سکے ہیں، روزہ، قیام لیل، تلاوت و سماعت قرآن نے جو ہماری روحانی آبیاری کی تھی وہ کس حد تک ثمرآورہوسکی ہے ،رمضان پاک کے نورانی اعمال سے دل کی زمین میںجو زرخیزی پیداہوئی تھی وہ کس حدتک محفوظ رہ سکی ہے، اسکی برقراری وحفاظت کی فکرکس حد تک ہمیں عزیز ہے۔ رمضان کے مبارک اعمال سے انابت الی اللہ کی جو دولت ہمارے ہاتھ آئی تھی اس پونجی کی ہم نے کس حد تک حفاظت کی ذمہ داری محسوس کی ہے۔ ایک اور جہت سے بھی جائزہ کی ضرورت ہے جو خیرامت ہونے کے ناطے ہماری ایک بڑی اہم اور عظیم ذمہ داری ہے اور وہ بندگانِ خدا کی روحانی پیاس بجھا کر اُن کو آخرت کی ابدی عذاب سے بچانا اور ان کو اُخروی کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ اللہ سبحانہ نے اس مبارک مہینہ میں اپنی مبارک کتاب قرآن مجید نازل فرمائی جومتقین کیلئے سرچشمۂ ہدایت اس معنی میں ضرورہے کہ صحیح معنی میں استفادہ تو متقین ہی کیلئے ممکن ہے اسلئے غورطلب امریہ ہے کہ رمضان پاک کے روزوں کے مقصود تقویٰ حاصل کرکے اس سرچشمۂ ہدایت سے استفادہ کو ہم نے کس حد تک یقینی بنایاہے،چونکہ یہ کتاب ہدایت صرف متقین ہی کیلئے نازل نہیں کی گئی بلکہ ساری انسانیت کیلئے اس میں ہدایت کا عظیم پیغام ہے، یہ کتاب ہدایت ساری انسانیت کیلئے ہادی ورہنما ہے، اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کس حدتک اس پیغام ہدایت سے گمراہ انسانیت کوروشناس کرانے کا فرض پورا کیا ہے۔

یہ اور اس طرح کے کئی ایسے سوالات ہیںجو ماہ رمضان کے حوالہ سے ہمیں دعوت غوروفکردے رہے ہیںجس کا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔قرآن یقینا پیغام ہدایت ہے،حقیقت یہ ہے کہ تحفظ ذہنی کے بغیر اس کتاب ہدایت سے روشنی حاصل کرنیوالوں کیلئے حق و باطل کے درمیان فرق وامتیاز کرنے میں کوئی تردد وتذبذب باقی نہیں رہ پاتا۔الغرض اس مبارک مہینہ کے روزوں کی فرضیت سے جہاں اور کئی مقاصد حسنہ مقصود رہے ہیں وہیں ایک اہم مقصد انسانیت کی نسبت سے امت مسلمہ کی ذمہ داری کی یاددہانی بھی کرانا ہے اور وہ مقصد انسانیت کے ساتھ دلجوئی وہمدردی کا ہے۔ اس انسانی ہمدردی کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ بے وقعت پست اقوام کی مالی امداد کی جائے اور معاشی اعتبار سے ان کو اونچا اٹھایا جائے، دوسرے یہ کہ اُخروی اعتبار سے ان کی نجات کی فکر کی جائے۔ روزہ کا ایک پہلو انسانیت کی بھلائی اور اس کی نصح وخیرخواہی ہے چنانچہ روزہ کی بھوک و پیاس روزہ دار کو بھوکے پیاسے کی بھوک و پیاس کا احساس تازہ کراتی ہے، صدقہ وخیرات کی اہمیت، زکوٰۃ کی فرضیت کا مقصود اس احساس کو عملی جامہ پہنانا ہے، انسانیت کے کتنے بچھڑے طبقات ہیں جو گمراہی کا شکار ہیں اور ان کے گمراہ مذہب میں ان طبقات کی حیثیت ایک نجس و ناپاک شیٔ سے زیادہ کی نہیں ہے، کوڑا وکرکٹ بھی آج اپنی قدر رکھتے ہیں اور انسان اس کا کاروبار کرکے مال و دولت سے نہال ہورہے ہیں لیکن یہ بیچارہ’’ دلت طبقہ‘‘ ایسا بے قیمت اوربے وزن ہے کہ اس کی چھوٹی سی لغزش اس کو اس مذہب کے اونچے طبقات کے روح فرسا مظالم کا شکار بناتی ہے۔ کچھ سال قبل روزنامہ سیاست میں ایک المناک خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک نابالغ دلت لڑکی موضع گنیش پورہ کے ہینڈپمپ سے پانی حاصل کرنے کیلئے پہنچی تھی کہ اس کا سایہ اعلیٰ طبقہ کے ایک ورزشی بدن رکھنے والے شخص پورن یادو پر پڑ گیا جو وہاں سے گزر رہا تھا، صرف اس غیراہم اور معمولی قضیہ کو جو اس لڑکی کا اختیاری بھی نہیں تھاایک بہت بڑا اورگمبھیر مسئلہ بنا کر اس یادو خاندان کی خواتین نے اس دلت نابالغ لڑکی کو شدید طور پر زدوکوب کیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ آئند اس ہینڈ پمپ پر دوبارہ دکھائی دی تو اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔

اس روح فرسا واقعہ نے ہندو مذہب کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کی ہے کہ وہ نچلی ذات والوں کو گندگی کا ایک ڈھیر مانتے ہیں ،ان کا سایہ بھی اعلیٰ طبقات پر پڑجائے تو وہ اس کو بھی گندگی تصور کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے ہندو سماج کی یہ وہ تصویرہے جو باطل افکارونظریات،توہمات وخرافات سے معمورسماج کی پیشانی پر آویزاںہے یہی وجہ ہے ایسے سماج کے پروردہ انسانیت کے احترام اوردبے کچلے مظلوم انسانی سماج کے ساتھ انصاف کرنے کے موقف میں نہیں ہیں، چھوت چھات کا دوردورہ ہے، نچلی ذات کے افراد اعلیٰ ذات والوں سے کسی معمولی درجہ کا اختلاط نہیں رکھنے کے روادارنہیں،باطل مذہبی تشددات نے اسکی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی کہ نچلی ذات والے اونچی ذات والوں کے ساتھ کوئی علاقہ رکھیں،ان کے بازوبرابر بیٹھنا اوران کے قدم سے قدم ملاکرآگے چلنا یا ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا تو بڑی بات ان کی آنکھ سے آنکھ ملا کر دیکھنے کی بھی وہ جرأت نہیں کر سکتے۔اس پس منظر میں روزہ رکھ کر مقصد تقویٰ حاصل کرنے کی ذمہ دار امت کا اس ماہ مبارک میں فرض تھا کہ وہ اس پیغام ہدایت سے ساری انسانیت کو روشناس کراتی ۔ اسلام کا انسانیت نواز پیغام بڑی معنویت رکھتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے امت مسلمہ اسلام کے انسانیت نواز پیغام کو انسانیت نواز اعمال وکردار سے بچھڑے طبقات تک پہنچا سکتی ہے، اسلام کا انسانیت نواز پیغام ان نچلی ذات والوں کے زخمی قلوب پر مرہم کا کام کرسکتا ہے، یہ دلنواز پیغام ان کے کانوں کی راہ سے دلوں میں اتر جائے تو وہ دبے کچلے انسان اسلام کو ایک عظیم اور انسانیت نواز مذہب پاکر خودانسانی معرفت اور پہچان حاصل کرسکیںگے اور اپنے کو سراٹھا کر جینے کا حقدار تسلیم کرلیںگے، انشا ء اللہ پھر ہوگا یہ کہ انسانیت دشمن باطل مذہب سے وہ اپنا رشتہ وتعلق توڑ کردین حق کے سایہ میں پناہ حاصل کرسکیں گے توحید کی نسبت سے اسلام نے جومساوات انسانی کا درس دیا ہے اس انسانیت نواز پیغام کے اسیر ہوجائیںگے۔ اس مقصد کیلئے اسلام میں مصارف زکوٰۃ میں ایک مد تالیف قلب کی ہے، اس سے مقصود یہی ہے کہ ایسے غیر مسلم جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں اور امکان یہ ہے کہ مالی امداد کے ذریعہ ان کی تالیف قلب کاکا م کیا جائے تو وہ اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرسکتے ہیں، مالی اعتبار سے کمزور نومسلمین کی اسلام پر استقامت کیلئے بھی اس مد کی اہمیت کو اسلام نے تسلیم کیاہے، اگرچہ کہ بعض فقہاء نے اس مصرف کو منسوخ مانا ہے،چونکہ حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں اس سلسلہ کو بند کردیا تھا ان کی رائے یہ تھی کہ اب اسلام کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے اسلئے اب تالیف قلب کے مصرف زکوۃ کی ضرورت نہیں رہی، یہ بات اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے لیکن موجودہ حالات پھرسے اس مصرف زکوۃ ’’تالیف قلب‘‘پر نظرثانی کی دعوت دے رہے ہیں،اس حکم کے باقی رہنے نہ رہنے پر گوکہ علماء کے درمیان اختلاف ہے لیکن ایسے نومسلم جوغربت وافلاس کا شکارہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ اپنے خاندان سے کٹ کرجن مصیبتوں میں گرفتارہیں ظاہرہے زکوۃ کے مدسے انکی مددکرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا،امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے نومسلمین کوسہارادے چونکہ اسلام لانے کی وجہ سے وہ بہت سے ان مراعات سے محروم ہو سکتے ہیں جوانکوباطل مذہب پر قائم رہتے ہوئے انکے اپنے سماج اورغیرمسلم حکومتوں سے انکو مل سکتے تھے تاہم اس پر بھی غور کیاجانا چاہئے کہ کمزور طبقات اور نچلی ذات کے دبے کچلے انسانوں کو اسلام کی شدید ضرورت ہے جن کا رشتہ و تعلق اللہ سبحانہ سے ٹوٹا ہواہے ان کو اللہ سبحانہ سے جوڑنے کیلئے تالیف قلب کے اس مصرف کے استعمال کی اجازت ملنی چاہئے تاکہ اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کا فرض پورا ہوسکے، اس دردمندانہ فکر کے ساتھ اس بات کا استحضار بھی رہے کہ رمضان پاک کا مبارک مہینہ تو دراصل اللہ سے ٹوٹے ہوئے بندوں کو اللہ سے قریب کرنے کا مہینہ ہے، اسلئے اہل علم کی ایک جماعت حسب احوال اس مصرف کی ضرورت کی قائل ہے، بعضوں نے اس کو خلیفۃ المسلمین کی اجازت پر موقوف رکھا ہے، امام قرطبی نے اس رائے کو راجح قرار دیا ہے چونکہ تالیف قلب کی ضرورت کسی وقت بھی پڑسکتی ہے، ضرورت داعی ہو تو ضرور زکوٰۃ کے اس مصرف کو روبہ عمل لایا جانا چاہئے۔ موجودہ حالات اس بات کے زیادہ متقاضی ہیں کہ دلت طبقات تک اسلام کا پیغام پہنچانے کیلئے اور ان کو اسلام کے دامن رحمت میں پہنچا کر اُن کو ان کی اس پستی سے اٹھانے کی غرض سے تالیف قلب کے اس مصرف کو استعمال میںلایاجاناچاہئے، اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے دلت طبقات کو اس طرح کی کوششوں سے اونچا اٹھانے اور ان کو دوسرے باعزت شہریوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ایک باعزت شہری کی طرح زندگی گزارنے کا حق دلانے کی شدیدضرورت ہے۔