عراق میں ہندوستانیوں کی موت

مجھے مقتل میں کیوں لائے ہو لوگو
یہ منظر تو مرا دیکھا ہوا ہے
عراق میں ہندوستانیوں کی موت
مرکز کی نریندر مودی حکومت انسانی زندگیوں کے اتلاف کو اہمیت نہیں دے رہی ہے ، اندرون ملک ہو یا بیرون ہند انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں تو اس پر توجہ نہ دینے کی عادت بنا لینا افسوسناک رویہ ہے۔ عراق میں ہندوستانیوں کی موت کے تعلق سے پارلیمنٹ میںوزیر خارجہ سشما سوراج نے از خود یہ بیان دے کر سب کو حیرت زدہ و غم زدہ کردیا ہے کہ عراق میں 2014میں لاپتہ تمام 39 ہندوستانی ہلاک کئے جاچکے ہیں۔حکومت نے ان 3 سال کے دوران اس سچائی کو پوشیدہ رکھ کر پارلیمنٹ کو گمراہ کیا۔ جبکہ عراق کے شہر موصل میں داعش کی جانب سے اغواء کرلینے کے بعد حکومت ہند نے اس مسئلہ کو فوری حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو مغویہ ہندوستانیوں کو بچانے یا ان کی نعشوں کی ہندوستان واپسی کا فوری اقدام کرسکتی تھی۔ سشما سوراج نے 3سال بعد ایوان کو یہ کہتے ہوئے واقف کروایا کہ ہندوستانی ٹیم اور عراقی عہدیداروں کو عراق کے علاقہ بدوش سے ایک اجتماعی قبر سے نعشیں دستیاب ہوئی ہیں جن کے ڈی این اے ٹسٹ سے توثیق ہوتی ہے کہ یہ نعشیں لاپتہ ہندوستانیوں کی ہیں۔ ہندوستان کے 40شہریوں کو روزگار کے نام پر عراق میں پھنسادیا گیا تھا۔ یہ تمام پنجاب، ہماچل پردیش، بہار اور مغربی بنگال کے شہری تھے 2014 جون سے غائب تھے جہاں داعش کا کنٹرول ہے۔2015 میں ان لاپتہ افراد میں سے ایک شخص ہرجیت مسیح اپنی جان بچاکر داعش کے چنگل سے فرار ہوگیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ تمام ہندوستانیوں کو ماردیا گیا ہے۔ لیکن وزارت خارجہ اُمور نے اس کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اگر اس وقت حکومت ہند ان لاپتہ ہندوستانیوں کی تلاش کرتے ہوئے ان کی نعشوں کو برآمد کرکے انہیں ان کے متعلقین کے حوالے کرنے کا قدم اٹھا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ گزشتہ سال جولائی میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کی تھی کہ لاپتہ افراد کو اس وقت تک مردہ قرار نہیں دیا جاسکتا تاوقتیکہ ٹھوس ثبوت مل جائے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کو یہ بتانے سے بھی گریز کیا کہ آخر اس نے لاپتہ افراد کی تلاش یا ہلاک کئے گئے افراد کی نعشوں کو برآمد کرنے کیلئے کیا انتظامات کئے ہیں۔ اب خود وزیر خارجہ نے راجیہ سبھا میں یہ بیان دیا کہ تمام ہندوستانی ماردیئے جاچکے ہیں۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ حکومت نے انسانی ہمدردی کے مظاہرہ میں بھی لاپرواہی سے کام لیا۔ بظاہر یہ کوتاہی کا معاملہ ہے، حکومت کی سطح پر اگر کوششیں ہوتی ہیں تو سفارتی روابط کے ذریعہ ہندوستانی افراد کی نعشوں کو برآمد کرنے میں تیزی سے کام کیا جاسکتا تھا۔حکومت نے اب پارلیمنٹ کو اس تکلیف دہ سچائی سے واقف کروایا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ متوفی افراد کے متعلقین کو معاوضہ دینے میں تاخیر نہ کرے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے خاصکر کانگریس پنجاب کے چیف منسٹر امریندر سنگھ نے مرکز کی جانب سے دیئے گئے اس بیان پر شدید تنقید کی کہ آئی ایس آئی ایس آئی کی جانب سے اغوا کے واقعہ کے بعد مرکز نے مجرمانہ طریقہ سے خاموشی اختیار کرلی ہے حکومت تو اندرون ملک گاؤ رکھشکوں اور نفرت کی مہم چلانے والوں کی جانب سے کئے جانے والے قتل عام پر بھی خاموشی اختیار کرتی رہی ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ سے متعلق اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے کی مرتکب ہوچکی ہے۔ اپوزیشن کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلہ پر حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ہلاک ہونے والے ہر فرد کے ارکان خاندان کو معاوضہ دلانے کی بھی کوشش ہونی چاہیئے کیونکہ حکومت نے اب تک متوفی افراد کے ارکان خاندان کو جھوٹی امیدوں پر ہی رکھا اور انہیں صرف دلاسہ دے کر اپنی مجرمانہ غلطیوں کی پردہ پوشی کرتی رہی ہے۔ یہ نہایت ہی افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ راجیہ سبھا میں اس مسئلہ کو کئی مرتبہ اٹھائے جانے کے بعد بھی حکومت نے جواب نہیں دیا، لیکن اچانک حکومت کی جانب سے عراق میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میںاز خود بیان دیا جانا حیران کن ہے، اس سے متعلقہ خاندانوں کے دلوں پر بجلی گری ہے ۔ لہذاحکومت کو چاہیئے کہ وہ ان خاندانوں کو مالی امداد کے ساتھ ہر ممکنہ مدد کرے اورآنے والے دنوں میں روزگار دلانے کے نام پر گڑبڑزدہ علاقوں کو ہندوستانی شہریوں کی منتقلی کے عمل پر کڑی نظر رکھے۔