عدم رواداری اور اشتعال انگیزی پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا

پارلیمانی اجلاس کا آج سے دوبارہ آغاز، بحث کیلئے کانگریس ، ترنمول کانگریس ، کمیونسٹ اور دیگر جماعتوں کی نوٹس
نئی دہلی۔ 29 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) حکومت کل پیر سے دوبارہ شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ایک دشوارکن ہفتہ کا سامنا کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے کیونکہ سماج میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر بحث کے علاوہ بعض وزراء کے مبینہ اشتعال انگیز ریمارکس پر ان کے خلاف سخت کارروائی کے لئے اپوزیشن جماعتیں پہلے دونوں ایوانوں میں کئی نوٹسیں پیش کرچکی ہیں۔ راجیہ سبھا میں کانگریس اور جے ڈی (یو) قاعدہ 267 کے تحت ایوان کی کارروائی معطل کرتے ہوئے اس مسئلہ پر بحث کے لئے نوٹسیں دے چکی ہیں۔ لوک سبھا میں کانگریس اور سی پی آئی (ایم) نے قاعدہ 193 کے تحت بحث کیلئے نوٹس دی ہے جس کے مطابق ایوان کی کارروائی معطل کرنے یا اس مسئلہ پر رائے دہی درکار نہیں ہوتی۔ عدم رواداری اور چند وزراء کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کے مسئلہ پر لوک سبھا میں پیر کو بحث مقرر ہے، تاہم راجیہ سبھا میں ’’ہندوستانی دستور کی پابندی کا عہد‘‘ کے زیرعنوان جاری بحث کے اختتام کے بعد اس ہفتہ کے دوران کسی بھی دن سے نوٹس میں بیان کردہ مسئلہ پر بحث شروع ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستانی دستور کے معمار اور دلت رہنما ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے 125 ویں یوم پیدائش کے ضمن میں وزیر فینانس ارون جیٹلی نے 27 نومبر کو دستوری پابندی پر بحث شروع کی تھی۔ پارلیمانی سیشن کے ابتدائی دو دن کارکرد رہے کیونکہ سیاسی جماعتیں یہ نہیں چاہتی تھی کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے یوم پیدائش کے موقع پر شروع کردہ دستوری پابندی سے متعلق بحث کو روکا جائے جس کے باوجود عدم رواداری اور فرقہ وارانہ تشدد پر اپوزیشن نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اپوزیشن پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’اصل تصادم تو اس ہفتہ شروع ہوگا جب حکومت قانون سازی کا ایجنڈہ ایوان میں پیش کرے گی۔ کانگریس، جے ڈی (یو)، سی پی آئی (ایم)، سی پی آئی اور ترنمول کانگریس رائے دہی کے ساتھ یا رائے دہی کے بغیر ان مسائل پر بحث کیلئے علیحدہ نوٹسیں پیش کرچکی ہیں۔ ان جماعتوں نے ایوان میں قرارداد کی منظوری اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے مرکزی وزراء کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بہت زیادہ انحصار اس بات پر ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے جانے والے مسائل پر حکومت کس طرح جواب دیتی ہے‘‘۔ ایوان زیریں میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر آنند شرما کانگریس نے نوٹس پیش کی ہے۔ کانگریس نے ملک میں خوف و ہراسانی کا ماحول پیدا کرنے کیلئے مبینہ طور پر منظم و منصوبہ بند انداز میں چلائی جانے والی مہم کے خلاف حکومت کو نشانہ بنانے کا منظم منصوبہ تیار کیا ہے۔ علاوہ ازیں ادیبوں، فن کاروں اور دیگر ممتاز شخصیات کی جانب سے ایوارڈ واپس کرنے جیسے دیگر کئی مسائل اُٹھانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ آنند شرما کی طرف سے پیش کردہ نوٹس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزادیٔ اظہارِ خیال پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایوان میں قرارداد منظور کی جائے۔ جے ڈی (یو) کے جنرل سیکریٹری کے سی تیاگی نے سماج میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے مسئلہ پر بحث کے لئے قاعدہ 267 کے تحت نوٹس دی ہے۔ ان کی پارٹی نے پانچ مرکزی وزراء سے ان کے مبینہ اشتعال انگیز ریمارکس پر استعفیٰ کا مطالبہ طلب کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ جے ڈی (یو) کے صدر شرد یادو نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’’وزیراعظم کو اپنی تقریر کے ذریعہ ملک کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ ملک میں کہیں بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوگا۔ اگرچہ این ڈی اے کے برسراقتدار آنے کے بعد اس (فرقہ وارانہ تشدد) میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مسئلہ پر بحث کیلئے سی پی آئی (ایم)کے پی کروناکرن اور کانگریس کے سی وینو گوپال کی طرف سے لوک سبھا کو دی گئی نوٹسوں پر کل غور ہوگا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے مسئلہ پر بالی ووڈ اسٹار عامر خاں کے ریمارکس کے تناظر میں 25 نومبر کو منعقدہ کُل جماعتی اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں عاجلانہ بحث کا پُرزور مطالبہ کیا تھا۔