عدالتوں پر دباؤ

عدل و انصاف چاہتے ہو میاں
وہ تو ہے آج کل کتابوں میں
عدالتوں پر دباؤ
ملک میں اب کئی دستوری اداروں پر حکومت کی جانب سے کنٹرول کی کوششیں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ پہلے تو عوام کے ذہنوں پر ایک مخصوص سوچ کو مسلط کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا گیا ۔ عوام کو ایک مخصوص نظریہ کے تابع بنانے کے اقدامات کئے گئے ۔ زر خرید میڈیا کے ذریعہ عوام کو ایک منفی سوچ کا حامل بنانے کی مساعی کی گئی تھی ۔ اس کے بعد ریزرو بینک اور سی بی آئی جیسے اداروں پر حکومت کا کنٹرول بنانے کیلئے کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیںاور ساتھ ہی سب سے خطرناک جو کوشش ہو رہی ہے وہ ملک کی عدلیہ پر دباؤ بنانے کی کوشش ہے ۔ ہندوستان میںعدلیہ پوری طرح سے آزاد ہے ۔ ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت آج بھی عدلیہ پر کامل یقین رکھتی ہے اور اسے عدلیہ کا سہارا ہے ۔ جہاں کہیں کسی گوشے کو ناانصافی کی شکایت ہوتی ہے اس کیلئے عدلیہ کا سہارا کافی ہوتا ہے ۔ عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے انصاف طلب کیا جاتا ہے اور بیشتر معاملات میں عدالتیں درخواست گذاروں کو انصاف رسانی میں کامیاب بھی رہتی ہیں۔عدالتوںمیںمقدمات کی کثرت کی وجہ سے انصاف رسانی کا عمل تاخیر کا شکار ضرور ہوتا ہے لیکن انصاف ہوتا ضرور ہے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت عوام کیلئے انصاف کا یہ راستہ بھی بند کرنا چاہتی ہے اور عدلیہ پر دباؤ کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے ایک بار پھر عوامی اعتقاد کا بہانہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ سب سے پہلے تو بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے سابری مالا مندر کے مقدمہ میں سپریم کورٹ فیصلے کی عملا ہتک کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ عدالتوں کو فیصلے سناتے ہوئے عوام کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے ۔ یہ انصاف رسانی کے تقاضوں کے مغائر ریمارک ہے ۔ عدالتیں جذبات یا احساسات کی بجائے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر فیصلے سناتی ہیں ۔ اب رام مندر مسئلہ پر بھی عدالتوں پر دباؤ بنانے کی مبینہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ کئی گوشوں سے لب کشائی کی جا رہی ہے کہ رام مندر کی تعمیر کیلئے عدالتوں کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کے بغیر ہی رام مندر کی تعمیر کا آغاز کردیا جائیگا ۔ یہ بھی عدالتوںکی مبینہ ہتک ہے ۔
بابری مسجد۔ رام مندر کا مسئلہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے ۔ اس سے جہاں تک مذہبی جذبات کی وابستگی کا سوال ہے تو صرف اکثریت کے ہی نہیں بلکہ اقلیت کے مذہبی جذبات بھی وابستہ ہیں۔ اس مسئلہ کو عدالتوں سے باہر حل کرنے کی کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں کیونکہ چونکہ یہ مذہبی نوعیت کا مسئلہ ہے اس لئے کوئی بھی فریق اس میں لچکدار موقف اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے میں واحد راستہ یہی بچ جاتا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ اس مسئلہ کا دیرپا فیصلہ کردے ۔ عدالت میں اس مسئلہ پر سماعت بھی ہونے والی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیمیں اور ان سے وابستہ قائدین رام مندر کی تعمیر سے زیادہ انتخابی فائدوں کیلئے اس مسئلہ کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔اگر عدالتوں میں کچھ وقت لگتے ہوئے یہ مسئلہ مستقل حل ہوجاتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہوسکتی ہے ۔ فیصلہ جس کسی فریق کے حق میں آئے اس کو قبول کرنا ہوگا ۔ تاہم فیصلہ اور سماعت کے آغاز سے قبل مندر کی تعمیر کی باتیں کرنا اور یہ کہنا کہ اس مسئلہ کو عدالتوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا عدالتوں پر دباؤ بنانے کی ہی کوشش ہے ۔ عدالتوں کیلئے یہ مشورہ بھی نہیں دیا جاسکتا کہ وہ عوامی جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔ عدالتوں کے سامنے جذبات و احساسات کی بجائے ثبوت و شواہد اور حقائق پیش کئے جانے چاہئیں اور انہیں کی بنیاد پر عدالتیں فیصلے کرتی ہیں۔
صرف مخصوص فرقہ کے جذبات کو پیش نظر رکھنے کی بات تو اور بھی نامناسب ہے ۔ پہلے تو ممبئی کی معروف درگاہ حضرت حاجی علی میں خواتین کے داخلہ کے تعلق سے سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو اس وقت کسی نے عوامی جذبات کی بات نہیں کی ۔ جب تین طلاق کے مسئلہ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو خاموشی اختیار کی گئی اور جب سابری مالا مندر کا مسئلہ درپیش ہوا اور عدالت نے فیصلہ سنایا تو عوامی جذبات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ یہ در اصل عدالتی کام کاج میں ایک طرح کی مداخلت کی کوشش ہی ہے جو انتہائی نامناسب ہے اور اس طرح کی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتوں کو پوری آزادی حاصل ہے اور اس میں در اندازی سے حکومتوں کو بھی گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔