عام آدمی اور مشن 2014 ء

ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اُٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
عام آدمی اور مشن 2014 ء
ملک میں لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایسا لگتا ہے کہ ہر جماعت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر انتخابات کی تیاریوں میں جٹ گئی ہے ۔ حکمت عملیاں بنائی جا رہی ہیں۔ سیاسی اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں ‘ عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کا ادعا ہو رہا ہے تو ملک و قوم کو سلگتے ہوئے مسائل سے نجات دلانے کے بلند بانگ دعوے بھی ہو رہے ہیں۔ ملک میں اقتدار کی دو اہم دعویدار سمجھی جانے والی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی میں تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کا آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا ۔ بی جے پی نے تو اپنے وزارت عظمی امیدوار کا اعلان کردیا ہے ۔ نریندر مودی کو اعزاز بخش دیا گیا ہے اور اس معاملہ میں ایل کے اڈوانی جیسے سینئر لیڈر کی مخالفت کو بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ کانگریس پارٹی میں بھی ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ کی روایت کو ترک کرتے ہوئے اب راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا جائیگا۔ کانگریس نے ہمیشہ ہی وزارت عظمی امیدوار کے اعلان سے گریز کرتی رہی ہے ۔ گذشتہ ماہ اسمبلی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پارٹی اپنے وزارت عظمی امیدوار کے نام کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ خود کانگریس پارٹی میں مختلف گوشوں کی جانب سے یہ اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ راہول گاندھی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا جائے ۔ سینئر قائدین نے بھی اس کی وکالت کی تھی ۔

اب خود وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی باضابطہ پریس کانفرنس میں اعلان کردیا ہے کہ وہ وزارت عظمی کی تیسری معیاد کیلئے دعویدار نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کے بعد ملک کی عنان اقتدار کسی اور وزیر اعظم کو سونپ دینگے اور انہیں امید ہے کہ یہ وزیر اعظم یو پی اے ہی کا ہوگا ۔ یہ ایسی سیاست ہے جس میں ملک کا عام آدمی یعنی رائے دہندہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا اور نہ ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اس رائے دہندہ کی کوئی فکر ہی لاحق ہے ۔ ہر جماعت مشن 2014 میں جٹ گئی ہے اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ووٹ اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا ہی سب کا مقصد بن گیا ہے ۔ ہر جماعت زیادہ نشستیں اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں اور کچھ بھی کرگذرسکتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ اقتدار بس انہیں ہی ملے تاکہ انہیں بھی اپنے حساب سے لوٹ کھسوٹ کا موقع ملتا رہے۔ اقتدار کی اس رسہ کشی میں کسی بھی جماعت کو عام آدمی کی فکر نہیں ہے اور نہ اسے درپیش مسائل کی یکسوئی کسی جماعت کا مطمع نظر ہے ۔ ہر جماعت عام آدمی کی ہمدرد اور اس کی غمگسار ہونے کا دعوی کرتی ہے لیکن اس کے مسائل کے تئیں ہر جماعت لاپرواہ نظر آتی ہے ۔ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ کے مسئلہ پر بی جے پی حالانکہ حکومت اور کانگریس کو مسلسل نشانہ بناتی ہے لیکن اس نے بھی اپنے اقتدار والی ریاستوں میں ان پر قابو پانے کیلئے کوئی نمایاں اقدام نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ قومی سطح پر ایسا کرنے کیلئے کوئی جامع منصوبہ رکھتی ہے ۔ ملک کی معاشی صورتحال پر بھی بی جے پی کو تشویش ہے لیکن اس محاذ پر بھی وہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے اور اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھی اس کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں ہے ۔ داخلی سلامتی کے نام پر بی جے پی صرف اشتعال انگیزیاں کرتے ہوئے رائے دہندوں کو ورغلانا اور انہیں اشتعال دلانا ہی جانتی ہے ۔ ایسے میں ان جماعتوں کی اوچھی سیاست کے باعث ملک کے رائے دہندے کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں پانچ سال میں ایک مرتبہ صرف ووٹ لینے تک انہیں محدود کرچکی ہیں اور ان کے اچھے برے کی کسی کو کوئی فکر لاحق نہیں ہے ۔ کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو عام آدمی کو درپیش بنیادی مسائل کی یکسوئی کو اپنا مقصدو منشا بناتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرے ۔

یہی وجہ ہے کہ دہلی میں جب اسمبلی انتخابات ہوئے تو وہاں کے رائے دہندوں نے اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کے ذریعہ ان جماعتوں کو جو جھٹکا دیا ہے اس سے ہر حلقہ فکرمند نظر آتا ہے ۔ اب ہر جماعت اس تگ و دو میں جٹ گئی ہے کہ کس طرح عوامی مسائل کو اچھالتے ہوئے عام آدمی کو ایک بار پھر گمراہ کیا جاسکے۔ اب جبکہ انتخابات کیلئے الٹی گنتی کا آغاز ہوچکا ہے اور وقت دھیرے دھیرے قریب آتا جا رہا ہے ان سیاسی جماعتوں کو کم از کم اب اپنے انداز فکر میں تبدیلی لانی چاہئے ۔ انہیں اس حقیقت کو قبول کرلینا چاہئے کہ ہندوستان کا عام آدمی اب بیدار ہوچکا ہے ۔ اس کا شعور اس قدر پختہ ہوگیا ہے کہ وہ محض جذباتی نعروں یا اشتعال کی سیاست یا شخصیت پرستی سے متاثر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اپنے مسائل کی یکسوئی چاہتا ہے ۔ ہندوستان کا عام آدمی چاہتا ہے کہ کوئی حکومت ایسی بھی ہو ‘ کوئی سیاسی جماعت ایسی بھی ہو جو صرف اس کے مسائل کی یکسوئی کیلئے کام کرے اور انہیں ممکنہ حد تک راحت فراہم کرے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہلی کے رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ سارے ملک کے رائے دہندوں کے سامنے ایک مثال پیش کردی ہے ۔ اب یہ مثال کس حد تک کارکرد ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان بھر کے رائے دہندے ‘ دہلی کے رائے دہندوں سے کم با شعور نہیں ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتوں نے اپنے مشن پر عمل آوری شروع کردی ہے وہیں عام آدمی کے سامنے بھی اپنا مشن ہے جو دوسروں سے زیادہ با اثر ثابت ہوسکتا ہے۔