عام آدمی کے مسائل اور بلیٹ ٹرین

میلے میں مری ماں جو مجھے لے کے چلی ہے
اور مجھ کو یہ شکایت ہے کہ میلہ نہیں دیکھا
عام آدمی کے مسائل اور بلیٹ ٹرین
وزیر اعظم نریند رمودی نے آج اپنے جاپانی ہم منصب شینزو ابے کے ساتھ ہندوستان کی اولین بلیٹ ٹرین کے کاموں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس پراجیکٹ کی لاگت کام کا تخمینہ کے آغاز سے قبل 1.10 لاکھ کروڑ کا لگایا گیا ہے جبکہ اس کی تکمیل کیلئے پانچ سال یعنی 2022 تک کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے ۔ حکومت نے بلیٹ ٹرین پراجیکٹ کی بڑے پیمانے تشہیر کا عمل بھی شروع کردیا ہے اور اس سے یقینی طور پر وہ عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریگی ۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستان آج بلیٹ ٹرین کا متحمل ہے ۔ یہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ ۔ صرف دو شہروں کے مابین اس ٹرین کے آغاز سے سفر کا دورانیہ دو گھنٹے تک کم ہوسکتا ہے اور اس کا کوئی اور فائدہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ جب یہ ٹرین باضابطہ شروع ہوگی تب اس کے کرایوں کا تعین ہوگا اور یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ یہ کرائے بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہی ہونگے ۔ آج جو اس پراجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ ہے وہ بھی اس پراجیکٹ کی تکمیل تک بڑھ جائیگا اور حکومت کیلئے اس کیلئے فنڈز فراہم کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ اس پراجیکٹ کی ضرورت یا اہمیت سے قطع نظر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آیا اس پراجیکٹ کے نتیجہ میں کیا عام آدمی کو درپیش مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں ؟ ۔ آج ہندوستان کی یہ حالت ہے کہ یہاںعام آدمی انتہائی بے وقعت کردیا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے عام آدمی کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کے اقدامات سے عام آدمی کو کسی طرح کی راحت ملنے کی بجائے اسے پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑ رہا ہے اور عام آدمی کے احساسات کو کوئی سمجھنے تک کو تیار نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارا جو میڈیا ہے وہ بھی حکومت کے اشاروں پر کام کرنے لگا ہے اور وہ حکومت کے خلاف عام آدمی کو خاطر میں لانے یا اس کے مسائل کو حکومت کے علم میں لانے کی اپنی ذمہ داری نبھانے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ ملک میں شائد ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جو مسائل کا شکار نہیں ہے ۔ عوام کا شائد ہی کوئی طبقہ ایسا ہوگا جو پریشانیوں اور مسائل کا شکار نہیں ہے لیکن حکومت مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے ۔ اب تو یہ دعوے بھی کئے جانے لگے ہیں کہ مودی حکومت کے وعدہ کے مطابق اچھے دن آگئے ہیں۔
اب یہ اچھے دن کس کے آئے ہیں اس کی وضاحت کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔ نہ اس کی کوئی تشریح کی جا رہی ہے ۔ ملک میں نوٹ بندی کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے تھے وہ اب جی ایس ٹی کے نفاذ کی وجہ سے مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک میں جملہ گھریلو پیداوار مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے ۔ آئندہ کے تعلق سے بھی جو پیش قیاسی جملہ گھریلوپیداوار کے تعلق سے کی گئی ہے وہ حوصلہ افزا نہیں کہی جاسکتی ۔ آج ملک کے کروڑوں نوجوان حکومت کے وعدے کے مطابق روزگار کے منتظر ہیں لیکن حکومت کو اس کی فکر نہیں ہے ۔ ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت اور ملک کے عام آدمی کے درمیان ایک خط فاصل کھنچ گئی ہے اور نہ عام آدمی اس خط فاصل کو عبو ر کرکے حکومت تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور نہ حکومت اپنی جانب سے اس خط فاصل کو پھلانگ کر عام آدمی تک پہونچنا چاہتی ہے ۔ حکومت اپنی دنیا میں ‘ اقتدار کے نشہ اور نام نہاد میڈیا کی مدح سرائی میں مست ہے ۔ وہ عوام کے مسائل سے عملا لا تعلق ہوگئی ہے ۔ عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کو نظر انداز کرکے سب کچھ اچھا ہے کا تاثر عام کرنے کیلئے مختلف گوشے حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ میڈیا ہو یا سوشیل میڈیا ہو سبھی پر حکومت کی مداح سرائی کے مقابلے ہو رہے ہیں۔ ملک کی داخلی حالت یہ ہے کہ یہاں کوئی اختلاف رائے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ جموں و کشمیر میں صورتحال قابل تشویش ہے ‘ شمال مشرقی ریاستوں میں مسائل ہیں۔ کئی ریاستوں کی صنعتی ترقی اور معاشی پیشرفت متاثر ہوگئی ہے ۔
نوجوان حکومت سے روزگار فراہمی کیلئے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے معیشت کی کمر توڑ دی ہے ۔ ملک میں لاکھوں افراد بیروزگار ہوگئے ہیں۔ انہیں کوئی راحت فراہم نہیں کی جا رہی ہے ۔ ملک کے کسان مسلسل خود کشی کرتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ایک مخصوص نظریہ کو مسلط کرنے کے ایجنڈہ پر عمل ہو رہا ہے ۔ اختلاف رائے پر کسی کا قتل کردینا عام بات ہوتی جا رہی ہے ۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا گیا ہے ۔ ان مسائل پر توجہ دینے کی بجائے حکومت کے سامنے صرف انتخابات میں کامیابی اور عوام پر اثر انداز ہونے کا مقصد ہے اور شائد اسی لئے بنیادی مسائل سے صرف نظر کرکے بلیٹ ٹرین پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے ۔