عامر علی خان وائی ایس آر کانگریس میں شامل ‘ جگن کی پیشکش قبول

حیدرآباد 2 جنوری ( آئی این این ) دو شخصیتوں کی تین دہوں پر مشتمل دوستی نے آج اس وقت ایک نیا موڑ اختیار کیا جب دونوں دوستوں نے عوامی مسائل کی یکسوئی اورفلاح و بہبود کے مقصد سے سیاسی راہ پر ایک ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب عامر علی خان نے آج وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ جناب عامر علی خان نے صدر وائی ایس آر کانگریس جگن موہن ریڈی سے ان کی قیامگاہ لوٹس پانڈ پہونچ کر ملاقات کی اور ایک گھنٹہ تک ان سے تبادلہ خیال کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ ذرائع کا تاہم کہنا ہے کہ جگن موہن ریڈی ایک طویل وقت سے عامر علی خاں سے رابطہ میں تھے اور انہیں پارٹی میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے ۔ عامر علی خان نے جگن موہن ریڈی سے ملاقات کے بعد کہا کہ انہوں نے ریاست کے تمام تینوں ہی علاقوں میں مسلمانوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے مقصد سے وائی ایس آر کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ انہوں نے ریاست کے تینوں علاقوں کے مسلمانوں کے مطالبات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ جگن موہن ریڈی کو پیش کی ہے اور جگن نے مسلم برادری کے تمام مطالبات کی یکسوئی سے اتفاق کیا ہے ۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کے تعلق سے جگن کے موقف کے تعلق سے سوال پر عامر علی خان نے کہا کہ تلنگانہ ان کی نسل میں ہے ان کی 9 پیڑھیاں نسل در نسل تلنگانہ ہی میں رہی ہیں ۔ اس کے باوجود ریاست کے تینوں علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے مفادات کی خاطرانہوں نے وائی ایس آر کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔انہوںنے کہا کہ تلنگانہ ‘ رائلسیما اور ساحلی آندھرا میں رہنے والے مسلمانوں کی فلاح و بہبود علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ جناب عامر علی خان نے کہا کہ مسلمان ریاست کی جملہ آبادی میں 9.2 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ تلنگانہ بشمول حیدرآباد میں ان کی آبادی کا تناسب 12.4 فیصد ہو جائیگا ۔ رائلسیما علاقہ میں مسلمان 12.5 فیصد ہیں۔ تاہم ساحلی آندھرا میں مسلمانوں کی آبادی صرف 4.1 فیصد ہے ۔

علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد تلنگانہ علاقہ میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوگا ایسے میں یقینی طور پر ان کا فائدہ ہوگا ۔ تاہم آندھرا میں مسلمانوں کا نقصانہوگا ۔ رائلسیما کے مسلمانوں کا تناسب گھٹ کر 6.9 فیصد ہوجائیگا جو اب علاقہ میں 12.5 فیصد ہے ۔ ایسے میں سیما آندھرا علاقہ میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ عامر علی خان نے کہا جگن موہن ریڈی سے ان کی 30 سال سے دوستی ہے اور وہ کبھی کبھار سیاست پر تھبی بات چیت کرتے تھے ۔ جگن چاہتے تھے کہ کچھ مسلم قائدین مسلم مسائل کو لے کر آگے بڑھیں نہ صرف تجاویز پیش کریں۔ انہوں نے مجھے پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی پیشکش کی تھی جو میں نے اس شرط کے ساتھ قبول کی کہ وہ ریاست کے تمام علاقوں میںرہنے والے مسلمانوں کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرینگے ۔ جگن موہن ریڈی کے مجلس کے صدر اسد الدین اویسی سے تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عامر علی خان نے کہا کہ دونوں کی دوستی ہوسکتی ہے لیکن انہوں نے صرف مسلم برادری کے ایجنڈہ کے ساتھ پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔

جناب عامر علی خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اخبار کی پالیسی ایک جداگانہ مسئلہ ہے ۔ اخبار اپنی پالیسیوں کے معاملہ میں بالکل آزاد ادارہ ہے لیکن انہوں نے شخصی طور پر ریاست کے تینوں علاقوں میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی کویقینی بنانے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے مقصد سے وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں عامر علی خان نے آئندہ انتخابات میں مقابلہ کا امکان مسترد نہیں کیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس تعلق سے قطعی فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائیگا۔