عالمی وملکی حالات ،ملت کا انتشاراور اس کا حل

ہندوستان کے مسلم وغیرمسلم جمہوریت پسندشہریوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک کے موجودہ ناخوشگوارحالات فسطائی طاقتوں اورغیر سماجی عناصر کی دین ہیں،بی جے پی حکومت کے مرکزمیں قیام کے بعدفرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ ہواہے، حکومت کے ذمہ دارعہدوں پر فائزبعض اصحاب کے بیانات اشتعال انگیزہیں،اس سنگین صورتحال پرحکومت کے ذمہ داروں کی چشم پوشی محل نظرہے۔ یہ بات خوش آئندہے کہ صدرجمہوریہ ہند،گورنر،ریزربنک آف انڈیا پھرسپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ملک کے موجودہ حالات پرتشویش ظاہرکی ہے،ملک کے بہت سے وہ نامورادیب،شاعر،فنکار اوردانشورلائق تحسین ہیں جنہوں نے اپنے اعزازات واپس لوٹاکرملک کی غیر سماجی وغیرجمہوری صورتحال کے خلاف انسانی احترام وبھائی چارہ ، یگانگت واتحاد کا ایک عظیم اخلاقی عملی پیام دیاہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ملک کی اکثریت بلاتخصیص مذہب وملت جمہوریت پسندانسانیت نواز ہے ،عدل وانصاف کے قیام ، قومی یکجہتی اورامن وآشتی کوپسندکرتی ہے ،بیرونی ممالک کے بنکوں میں موجودملکی دولت کی واپسی،کرپشن کا خاتمہ ،روزگارکی فراہمی ،غریبوںکی مددکرکے غربت کا سدباب پھر’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ جیسے سہانے خواب موجودہ حکومت نے دکھائے تھے۔وہ شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے،ملک کی اکثریت جومتوسط اورسطح غربت سے نیچے رہ کرزندگی گزاررہی ہے وہ تو اس حسین سپنوں میں کھوئی ہوئی خوشی وسکھ سے بے نیازغم وآلام ،مصائب ومشکلات ہی کومقدرمان کر صبروقرارکے ساتھ جی رہی ہے۔ظاہرہے عام شہریوں کا توکوئی بھلا نہیں ہوسکا اورنہ ان کا کچھ بھلا ہونے کی امید ہے، البتہ ملک کے سرمایہ دارطبقے کا ضروربھلا ہواہے،اورکئی ایک نامورکمپنیوں کے قرضے معاف کردئیے گئے ہیں۔ اربوں کھربوں ملک کا سرمایہ لوٹ کر کئی ایک نامور ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ملک میں جرائم کی شرح میں آئے دن اضافہ ہورہاہے،گرانی آسمان سے باتیں کررہی ہے، یہ تو اس ملک کی صورتحال ہے ،عالمی سطح پراسلام اورمسلمانوں کے خلاف جوسازشیں رچی جارہی ہیں وہ حد درجہ تشویشناک ہیں،بعض طاقتورممالک نے پوری دنیا کوزیرنگیں رکھنے اوراپنی بالا دستی قائم رکھنے کے منصوبہ پرعمل کرتے ہوئے ظلم وجورکا بازارگرم کررکھاہے۔مختلف فرضی الزامات اوربہانہ بازی کرکے کمزورملکوں کوبم وبارود برساکرتہس نہس کیا جارہاہے،آن کی آن میں ہنستی کھیلتی انسانی زندگیاں خاک وخون میں لتھڑی ہوئی موت کو گلے لگائے ہوئے مظلومیت کی داستان بن کر دردمند انسانیت کو خون کے آنسو رلا رہی ہیں ۔جس سے امن وانصاف کے قیام کے جھوٹے دعویداروںکی شبیہ آشکار ہے ۔یہ بات بڑی خوش آئندہے کہ ملکی وعالمی تشویشناک صورتحال کے پس منظر میں،ملک کے ایک مؤقرادارہ جمعیۃ العلماء ہندنے قومی یکجہتی کانفرس کا انعقاد عمل میں لایا،زعماء ملت ،مذہبی وسیاسی مسلم وغیرمسلم قائدین نے ملک کے موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کے قیام کیلئے مسلم وغیر مسلم بھائیوں کے درمیان اتحادواتفاق ،پیارومحبت ، رواداری وانسانیت ،بھائی چارہ ویکجہتی جیسے انسانی اقدارکے فروغ کیلئے مل جل کرکام کرنے کی اہمیت وضرورت پرزوردیا ،تاکہ فرقہ پرست عناصر کی غیرسماجی ،غیرانسانی وغیردستوری سرگرمیوںسے سیکولر شہری آگاہ ہوسکیں اورملک کے سیکولر کردار کو مجروح ہونے سے بچانے کیلئے ان کے ناپاک عزائم کوناکام بنانے میں اپنا حصہ ادا کرسکیں ۔مشہورمؤرخ محترم ڈاکٹررام پنیانی صاحب نے کہا ’’ماضی میں ہندوراجائوں اورمسلم بادشاہوں کے درمیان جوجنگیں لڑی گئی تھیں وہ مذہب کیلئے نہیں بلکہ سلطنت کی توسیع کیلئے لڑی گئی تھیں،تاہم موجودہ زمانہ کے فرقہ پرست عناصر ان جنگوں کومذہبی رنگ دیتے ہوئے ہندئوں اورمسلمانوں کے درمیان نفاق ونفرت پیداکرنا چاہتے ہیں‘‘مسلم وغیر مسلم بھائیوں کے درمیان جس کو بنیادبناکرنفرت کی دیوارکھڑی کی جارہی ہے اورپاک صاف دلوں میں نفرت کازہرگھولا جارہاہے جس سے بعض غیر مسلم بھائیوں کے دل زہرآلود ہوگئے ہیں‘‘ موصوف نے اپنے اس بیان سے مسلم وغیر مسلم بھائیوں کے درمیان پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیاہے ،اس موضوع کوتاریخی حوالوں کے ساتھ محترم رام پنیانی صاحب نے اس سے پہلے بھی بڑے مؤثرپیرائے میں کئی مرتبہ مسلم وغیر مسلم بھائیوں کے درمیان منعقدہ اجتماعات میںبڑے درد کے ساتھ بیان کیاہے۔ان کے خطابات واٹس اپ اوریوٹیوب پردیکھے جاسکتے ہیں، مزیدتاریخی حوالوں سے اس موادکومختلف زبانوں میں اور وضاحت کے ساتھ عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے ،دیگرقائدین نے بھی ملک کوفسطائی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے بچانے اورملک کوسیکولرڈھانچے پرباقی رکھنے اوراسکی ترقی اور سارے عالم میں اسکی نیک نامی کیلئے ہندومسلم اتحادکووقت کی ضرورت قراردیاہے۔

صدرجمعیۃ علماء ہند نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندومسلم اتحادکووقت کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے کہا: ’’جمعیۃ علماء ہندغیرسیاسی جماعت ہے جوہمیشہ ہندومسلم اتحادکیلئے کام کرتی آرہی ہے اورآئندہ بھی اپنے اس مقصدکوجاری رکھے گی‘‘۔الغرض ملک کے موجودہ حالات میں ایسی کوششوں کواورتیزترکرنے کی ضرورت ہے،اس کے ساتھ اس پر بھی سنجیدہ غوروفکرکی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان مذہبی،سماجی اور سیاسی سطح پراورخاص طورپرمسلکی اختلافات اوراس میں شدت پسندی کی روک تھام کیسے کی جائے۔اسلام کے دئیے گئے دو اصول ہیں:پہلا اصول انسانی نقطئہ نظرسے سارے انسانوں کے درمیان اتحادویگانگت ،محبت وبھائی چارہ ، رواداری وحسن سلوک کا ہے۔دوسرااصول ایمانی نقطئہ نظرسے سارے مسلمانوں کے درمیان فکرونظر،مکتب ومشرب کے اختلاف کوبالائے طاق رکھ کرآپسی اتحادواتفاق کے قیام کا ہے۔
آسائشِ دوگیتی تفسیر ایں دوحرف است
بادوستاں تلطف بادشمناں مدارا
ہماری جدوجہدجہاں پہلے اصول پرعمل کیلئے ہونی چاہئے وہیں دوسرے اصول پر بھی بھرپورتوجہ کی ضرورت ہے۔ایمانی نقطئہ نظر سے ملت کے تمام افراد ایک جسدکے مانندہیں ، دلوں میں الفت ومحبت ،جاں نثاری وغمگساری کے ساتھ ان کے درمیان اتحادواتفاق کے جذبات مومنانہ کردارکا حصہ ہیں،ملت کا اتحادعلماء دین کے آپسی اتحادسے مربوط ہے،علماء ومذہبی قائدین اسلام کے بنیادی اصول وقواعدمیں اتحادکے باوجودفروعی وغیر اہم مسائل میں اختلاف کا شکارہوں ،اپنی علمی لیاقت ،تحریروتقریرکی صلاحیت کوملت کے درمیان محبت واتحاد کی تخم ریزی کے بجائے اپنے افکارونظریات کی ترویج واشاعت میں منہمک ہوں اوراس میں اخلاقی حدودکی رعایت بھی باقی نہ رکھ پارہے ہوںتوظاہرہے ان کی اقتدا کرنے والے عوام بھی ان کی اقتدا میں اختلاف کی راہ پرگامزن رہیں گے۔اس طرح امت کئی طبقات وگروہ میں بٹ جائے گی،اس پر سخت غوروفکری کی ضرورت ہے، فکری ،نظری و فروعی مسائل میں اخلاقی حدود سے تجاوز آپسی اتحادکوپارہ پارہ کرنے کا سبب بن رہاہے۔زندگی کے اور شعبوں جیسے سماجی وسیاسی مسائل میںتواضع کے فقدان اور ’’انا‘‘ کے تیز ہونے کی وجہ سے امت کے اتحاد کو شدید نقصان پہونچ رہا ہے ۔عالمی وملکی سطح پر اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کی وجہ عمومی حیثیت سے جب کبھی کوئی افتادآن پڑتی ہے تو وقتی طورپرامت کے مذہبی علماء ودانشورایک جگہ ضرورجمع ہوجاتے ہیں لیکن ان کا جمع ہونا دین اسلام کے آفاقی تصور’’امت واحدہ‘‘کے مغائرصرف مصنوعی اورسطحی اندازکا محسوس ہوتاہے۔کاندھے سے کاندھا لگاکرجسموں کے ساتھ جڑے ضرورنظرآتے ہیں لیکن خواص کے دلوں کے جڑنے اورعوام کے دلوں کو جوڑنے کا کوئی مرہم بظاہرنظرنہیں آتا،علماء اسلام کوتوغلبہ اسلام کیلئے کوشاں رہنا چاہئے ،اپنی فکرونظرکا محوراسی کوبنانا چاہئے ،مسلک ومشرب کی ترویج واشاعت کو بنیادی نصب العین بناکر امت واحدہ کوفرقوں اورگروہوں میں بانٹنے سے سخت احتراز کرناچاہئے۔موجودہ حالات غلبہ اسلام اوراصلاح امت کیلئے علماء کومتحدہ طورپرمخلصانہ کوشش کی دعوت دے رہے ہیںاور یہی دعوت سماجی وسیاسی سطح پر کام کرنے والی مسلم جماعتوں و تنظیموں کیلئے بھی ہے ، اس دعوت کو مسلم معاشرہ کے مذہبی سیاسی وسماجی رہنما جس دن قبول کرلیں گے ،اپنی اصلاح کی پہل کرتے ہوئے امت مسلمہ پر شفت کے نقطہ نظر سے اپنے درمیان حقیقی اتحاد واتفاق پیدا کرلیں گے تو یہی اتحاداسلام کی حقیقی بنیادوں پرقائم اتحادماناجائے گا، پھریہی خواص کا اتحاد عوام کے اتحادکا سبب بنے گا،پھر نہ تو مسلمانوں کی تنظیمیں جداجداہوں گی نہ ان کی مساجدپرکسی خا ص مسلک کی چھاپ ہوگی۔اس عظیم مقصدکی تکمیل کیلئے مسلم مذہبی قائدین ، زعماء ملت ،سیاسی وسماجی کارکنان سب کومتحدہ مثبت کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کا پرنٹ میڈیا والیکٹرانک میڈیا میں بھی رسوخ اوران کا آپس میںمتحدہونا ناگزیر ہے تاکہ اس اہم کازکیلئے اسکے ذریعہ ملت میں بیداری لائی جاسکے۔ان شاء اللہ یہ اقدام موثرنتائج کا حامل ہوگا،اتحادکی اس طرح تعمیری کوشش دردمندی وجگرسوزی کے ساتھ ہوگی تو ضرور اس کے مثبت نتائج حاصل ہوں گے ۔