طلباء میں خود کشی کا رجحان

نوجوانوں بالخصوص طلباء میں خود کشی کا رجحان افسوسناک حد تک بڑھتا جارہا ہے ۔ تعلیمی ناکامی سے مایوس ہو کر کم عمر بچے اپنی جان دینے پر آمادہ ہورہے ہیں ۔ تلنگانہ میں انٹر میڈیٹ یا مسابقتی امتحان میں کامیابی حاصل نہ کرنے والے طلباء میں مایوسی کا پیدا ہونا تشویشناک مسئلہ ہے ۔ طلباء کو کامیابی اور ناکامی دونوں حقائق سے واقف کرانے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے ۔ اسکول کے ابتدائی درجہ سے ہی طلباء میں انسانی زندگی کی اہمیت اور افادیت سے واقف کروانا اور خود کشی کے نقصانات سے آگاہ کرانا بھی اب ضروری ہوتا جارہا ہے ۔ معاشرہ میں کم عمر بچوں کی ذہنی نشوونما اس طرز پر ہونی چاہئے کہ ہر بچہ یا نوجوان اپنی زندگی کی اہمیت کو سمجھ کر خود کو ایک مضبوط انسان بنانے کی مشق کرے ۔ گھر میں باہر دوستوں کے درمیان یا اسکول کے کلاس روم میں ہونے والی روزمرہ کی سرگرمیوں کے دوران اگر کسی ایک کو خلاف توقع بات ہوتی ہے تو وہ اس بات کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے تو انتہائی اقدام کر بیٹھتا ہے ۔ طلباء کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک عالمی ، قومی اور علاقائی سطح کی کوششوں کو ترجیح دینی چاہئے ۔ عالمی سطح پر بھی نوجوانوں ، طلباء میں خود کشی کے بڑھتے واقعات کو نوٹ کیا جائے تو یہ تعداد نہایت ہی تشویشناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ۔ عالمی سطح پر ہی 10 تا 14 سال کی عمر کے بچوں میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ کم بچے اپنے درد اور تکلیف یا خود اعتمادی کو پہونچنے والے ٹھیس کو برداشت نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں وہ انتہائی قدم اٹھاتے ہیں ۔ ایسے بچوں پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ طلباء یا نوجوانوں کے جذبات و احساسات کو ملحوظ رکھ کر ایک ایسا میکانزم بنانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے اسکولوں اور جونیر کالجوں میں ہر کلاس کے اندر قیمتی زندگی کی اہمیت سے طلباء کو واقف کرایا جانا چاہئے ۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ انہیں زندگی کی جدوجہد میں ایک سپاہی بن کر حالات کا سامنا کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا ہونا چاہئے ۔ تلنگانہ میں انٹر میڈیٹ یا دسویں جماعت کے نتائج کے موقع پر طلباء میں خود کشی کا رجحان پایا جاتا ہے ۔

ان واقعات کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پر کوئی میکانزم نہیں ہے لیکن حکومت کو اس سلسلہ میں غور کرتے ہوئے اسکولوں میں طلباء کے لیے معاشرتی زندگی اور اپنی جان کو عزیز رکھنے کی تعلیم دینے پر بھی پالیسی بنانی ہوگی ۔ گذشتہ چند دن کے دوران ہی تلنگانہ میں انٹر میڈیٹ میں ناکام طلباء کی خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ انٹر میڈیٹ میں ناکامی یا کم نشانات ملنے پر مایوس ہو کر جب بچے انتہائی اقدام کرتے ہیں تو یہ واقعہ ہر لحاظ سماجی خصوصی نقصان کے مترادف ہوتا ہے ۔ انٹر میڈیٹ کے طلباء پر سال اول سے ہی مسابقت میں حصہ لینے سے متعلق ذہنی دباؤ ہوتا ہے ۔ ڈگری یا پی جی سے زیادہ انٹر میڈیٹ کے طلباء کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ ایمسیٹ اور آئی آئی ٹی انٹرنس میں شرکت کرنے والے طلباء سب سے زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان پر پہلے سے زیادہ دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب وہ مسابقتی امتحان کی تیاری کررہے ہوتے ہیں ۔ تلنگانہ میں حالیہ خود کشیوں کے علاوہ گذشتہ پانچ سال کے دوران ہونے والے خود کشی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو پانچ سال میں 42 طلباء نے خود کشی کی تھی ان میں 24 لڑکیاں اور 18 لڑکے ہیں ۔ لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان انٹر میڈیٹ سال اول سے ہی پیدا ہوتا ہے ۔ خود کشی کے تعلق سے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر این پریندر راؤ کا احساس ہے کہ سماج میں موجود تناؤ اور دباؤ کی صورتحال ہی مایوسی کا باعث بن رہی ہے اس کے علاوہ حصول غرض کی نیت سے جب طلباء کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوجاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اب زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اس لیے ان طلباء کی کونسلنگ ہونا ضروری ہے ۔ خاص کر سماجی اور معاشی طور پر کمزور خاندانوں اور طلباء کے اندر ناکامیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور وہ اپنی ناکامی سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ اس میں ان والدین کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کے بچے چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ناکام ہوتے ہیں تو انہیں شدید صدمہ پہونچتا ہے ۔ نظام کالج میں سوشیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ونیتا پانڈے کا بھی احساس ہے کہ طلباء میں خود کشی کا رجحان مایوسی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ۔ لہذا طلباء ہو یا نوجوان ہر ایک کے اندر اپنی قیمتی زندگی حفاظت کرنے کا درس دینا ضروری ہے ۔۔