طلاق کے شرعی مسائل

مرسل : ابوزہیر نظامی

۱۔  طلاق کی تعریف : طلاق کے معنیٰ لغت میں قید دور کرنے کے ہیں اور اصطلاح فقہ میں خاص قید نکاح کے دور کرنے کا نام طلاق ہے ۔
۲ ۔ طلاق کا اختیار : طلاق کا اختیار شوہر کو حاصل ہے۔ زوجہ کو اس کا اختیار نہیں ہے ۔
توضیح : معاملہ نکاح سے جو قید و تعلق زوجین میں پیدا ہوتا ہے وہ قید و تعلق جس طرح زبانی اقرار سے قائم ہوا تھا اس طرح زبانی گفتگو سے ٹوٹ جاتا ہے ۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اس کے قائم ہونے کیلئے طرفین کی رضامندی مشروط تھی اور اس کا باقی رکھنا یا توڑ دینا صرف شوہر کے اختیار میں رکھا گیا ہے (عورت کی رضامندی یا ناراضی کو اس میں دخل نہیں ہے ) ۔
۳ ۔ طلاق کے صفات باعتبار مواقع و حالات : باعتبار حالات طلاق کے صفات (یا احکامی مدارج ) حسب ذیل ہیں :
(۱) حرام ہے اگر طلاق بدعی ہو ۔
(۲ ) مکروہ ہے اگر بہ نیت ضرر رسانی بے وجہ اور بے ضرورت طلاق دی جائے ۔
(۳ ) مباح ہے اگر کسی ایسی وجہ سے طلاق دی جائے جو دین سے تعلق نہ رکھتی ہو ۔
(۴ ) مستحب ہے اگر کسی دینی وجہ سے طلاق دی جائے ( مثلاً زوجہ اس کو یا اس کے اعزہ کو تکلیف دیتی ہو یا نماز نہ پڑھتی ہو ) ۔
(۵) واجب ہے اگر طلاق نہ دینے میں نقصان مال یا جان کا خوف ہو یا زوجہ کے حقوق کی عہدہ برآئی نہ ہو یا طلاق دینے کا ماں باپ نے احکام شرعیہ کے تحت حکم دیا ہو ۔
۴ ۔ طلاق کے ارکان : طلاق کے مقررہ الفاظ کا کہنا رکن طلاق ہے ۔
۵ ۔ طلاق کے شرائط  : طلاق کے شرائط حسب ذیل ہیں:
(۱) عورت کا مرد کے نکاح میں ہونا ‘ اگر کوئی اپنی منکوحہ کے سوا کسی اور عورت کو طلاق دے یا اپنی منکوحہ مطلقہ کو عدت کے اندر طلاق دے تو صحیح نہ ہوگی ۔
(۲ ) شوہر کا بالغ ہونا ‘ نابالغ شوہر کی طلاق واقع نہ ہوگی ۔
(۳) شوہر کا عاقل ہونا ‘ بے عقل اور مجنون کی طلاق صحیح نہیں۔ اسی طرح حالت نیند میں طلاق دی جائے تو واقع نہ ہوگی ۔
(تنبیہ ) حالت نشہ میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائیگی ۔
(اخذ: نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ ششم)