طلاق ثلاثہ آرڈیننس کے خلاف بمبئی ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل ، یکم اکتوبر کو سماعت 

ممبئی : حال ہی میں مرکزی حکومت نے تین طلاق کے سلسلہ میں ایک آرڈیننس منظور کیا ہے ۔جس کے مطابق کوئی مسلمان اپنی عورت کو ایک ہی وقت میں تین طلاق دیتا ہے تو وہ قانوناً مجرم ہے او راس سلسلہ میں ترمیم شدہ قانون کے تحت اس کو تین سال کی جیل کی سزا سنائی جاسکتی ہے ۔ لیکن ملک تمام اسلامی تنظیمیں اس آرڈیننس کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ اور اس کے خلاف آواز بلند کئے ہیں ۔ حالانکہ ملک کی مسلم خواتین نے بھی اسے رد کردیا ہے ۔

اس سلسلے میں ممبئی کے سابق کارپوریٹر اور ایک تنظیم نے مشترکہ طور پر بامبے ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کی ہے ۔ مذکورہ بالا پٹیشن میں مرکزی حکومت اورریاستی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے ۔ہائی کورٹ اس معاملہ میں اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو دفیصلہ سناسکتا ہے ۔مرکزی حکومت کے نے طلاق ثلاثہ کیلئے آرڈیننس جاری کرنے کے خلاف سابق کارپوریٹر مسعود انصار ، نصیب اللہ خان ، آفرین بانو ، ایڈوکیٹ دیویندر مشرا او رررائزنگ وائس فاؤنڈیشن نامی تنظیم نے مشترکہ طور پر مریم تنظیم نظام کے توسط سے بامبے ہائی کورٹ پٹیشن داخل کی ہے ۔

طلاق سے متعلق منظور شدہ آرڈیننس کے تعلق سے عرضداشت گذاروں کا کہنا ہے کہ ضابطے اخلاق کوبالائے طاق پر رکھتے ہوئے جو آرڈیننس جاری کیا گیا ہے ، وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس بات کے خدشات ہیں کہ اس کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ان عرضداشت نے کہا کہ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ اس قانون میں ملزم بنائے گئے شوہر کو اپنی بات رکھنے اور ضمانت پر رہائی کا بھی موقع دیا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں کیاگیا ہے۔

ایڈوکیٹ مریم تنویر کا کہنا ہے کہ جو آرڈیننس پاس کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ خصوصی طور پر مسلمانوں سے وابستہ مردوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔اور اس آرڈیننس کو پاس کرنے کیلئے جو طریقہ اختیار کیاگیا ہے اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ کے مردوں کے بنیادی حقوق صلب کرلئے جائیں ۔