طب یونانی، سب سے قدیم نظام طب،تاریخ اور جائزہ

روزنامہ سیاست ، حیدرآباد ، مورخہ۲۳فروری ۲۰۱۵ کے صفحہ اول پر مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کے تعلق سے ایک خبر شائع ہوئی کہ نویں صدی میں خلیفہ بغداد نے آیوروید کا عربی و فارسی میں ترجمہ کرایاپھروہاںسے وہ یوروپ پہونچا جہاں پر وہ عصری طب کا ماخذ بنا۔ایک طرح سے وہ بین السطور یہ پیغام دے رہے تھے کہ مسلمانوںنے یونانی طب کی شکل میں آیوروید ہی سے علم حاصل کیا۔ ڈاکٹر غوث الدین صاحب،سابق مشیر محکمہ آیوش، حکومت آندھرا پردیش نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے راقم سے فرمایا کہ مرکزی وزیر کے بیان سے یونانی حلقوں میں غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے اس لئے اس کا ازالہ فوراً ضروری ہے۔ لہذا راقم نے بھی یہ مناسب خیال کیاکہ حقائق کی درستگی کیلئے طب یونانی کی ایک مختصر تاریخ بیان کردی جائے تاکہ لوگوں کے اذہان سے شکوک و شبہات کے پردے چاک ہو جائیں اور حقیقت آشکارا ہوجائے۔اسی لئے یہ مضمون حاضر خدمت ہے۔
ابتداطب یونانی :
طب یونانی کی تاریخ غالباً اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسانی تاریخ ۔ مورخین کے مطابق سب سے قدیم تہذیبیں بابل (Babylon) اور مصر(Egypt)کی ہیں۔ بابل پہلے جنوب مغربی ایشیا میں واقع میسو پوٹا میا(Mesopotamia)کا حصہ تھا جہاں تقریباً4000قبل مسیح سمیر (Sumer)نام کی قوم آباد تھی یہ دو حصوں شمال اور جنوب میں منقسم ہوئی شمالی حصہ آشور کہلایا اور جنوبی حصہ بابل ۔ بابل میں دو مشہور نہروں دجلہ اور فرات کی درمیان کی خشک پٹی پر جو قوم آباد تھی اس نے فن طب کی ابتدا کی اس طرح بابل طب کا اولین مرکز بنا۔ مصری تہذیب کے آثار و شواہد کے ذریعہ قدیم مصری طب کا پتہ چلتا ہے ۔ قدیم مصری طب میں امحوطب(Imhoteb)کو طب کا بانی اور صحت کا دیوتا سمجھا جاتا تھا ۔ ان دو قدیم تہذیبوں، بابل اور مصرکے زوال کے بعد پورا علم و فن یونان منتقل ہو گیااسی لئے اسے طب یونانی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ قدیم یونانیوںکے عقیدے کے مطابق پہلا طبیب اسقلی بیوس(Asclepius)ہے جس نے حضرت ادریس علیہ السلام (Hermes)ہرمس سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس طرح طب یونانی کا سلسلہ پیغمبر خدا حضرت ادریس علیہ السلام تک پہنچ جاتا ہے جن کو خالق کائنات نے علم و حکمت اور معرفت سے نوازا تھا۔
تاریخ میں اسقلی بیوس (Asclepius) سے لیکر بقراط تک کئی اہم اطبا کا تذکرہ ملتا ہے ۔ گر چہ طب با قاعدہ طور پر ما قبل بقراط مدون ہوگئی تھی لیکن اس درمیان کے اطباء نے اس طب کو اپنے اندر ہی محفوظ رکھا تھا ۔ مزید طب پر جھاڑ پھونک، تعویذ اور سحر کا زیادہ غلبہ تھا ۔ بقراط نے ۴۰۰سال قبل مسیح طب کو توہمات اور دیومالائی تصورات سے آزاد کیا ، صحت و مرض سے متعلق نظریات قائم کر کے طب کو سائنسی شعورعطا کیا ، علاج بالغذا ور علاج بالدواء کا صحیح تصور پیش کیا ۔ اس موضوع پربقراط نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ۔ اس نے طب کی تدوین و تعمیم کر کے اسے ایک مستقل فن کا درجہ دیا اسی لئے بقراط کو ابو الطب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کودیسقوریدوس ، ارسطو وغیرہ نے آگے بڑھایا۔ طبی افکار و خیالات جن کی بنیاد تجزیہ ، تحلیل، تنقید، تحقیق اور تجربہ پرتھی اسکندریہ میں انہیں ترقی ملی۔ جالینوس نے اسے مہمیز عطا کی ۔ پہلی صدی عیسوی میں دیسقوریدوس نے ایک بہت ہی اہم کتاب میٹیریا میڈیکا لکھی جو بعد میں عربی ترجمہـ۔ کتاب الحشائش کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ کتاب علم الادویہ کے ماخذ اول کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس نے اپنے دور کے تمام ادویات کے تعلق سے جو خیالات و نظریات تھے اپنی تصنیف میں جذب کر لیا جو کئی صدیوں تک درسی کتاب کی حیثیت سے پڑھائی جاتی رہی ۔
جاری ہے …

یونانی تہذیب کے زوال کے بعد وہاں طب پر بھی گہرا اثر پڑا ۔ اس وقت چھٹی صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ذریعہ شمع ہدات روشن ہو چکی تھی اور تمام ما قبل تہذیب و تمدن اور علوم و فنون راہ راست پر آنے لگے، اسلامی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اسلامی حکومت مشرق میں انڈونیشیا سے ہوتی ہوئی شمالی افریقہ، جنوبی یورپ اور سسلی تک پھیل گئی ۔ اس سریع رفتار فتوحات سے معمور صدی میں نئے فاتحین نے مفتوح ملکوں کی تہذیب و تمدن اور علم کو حاصل کرنا ضروری سمجھا ۔ اس وقت کے خلفاء علمی مدارس کے زبردست محافظ بن گئے ۔ آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفۃ المنصور(عہد خلافت: ۷۵۴۔۷۶۹) نے مدرسہ جندیشا پور کو بام عروج پر پہونچایا ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے مدرسہ بغداد کی سرپرستی کی اوربیت الحکمت قائم کیا جہاں مختلف علوم و فنون میں ترقی و توسیع کا کام انجام دیا گیا ۔یہ ادارہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہا۔
ہندوستانی اطباء سے روابط:
خلیفۃ المنصورکے عہد خلافت سے بغداد میں ہندوستان سے ویدوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا جس کا مقصد آیوروید کی معلومات کو عربوں تک پہونچانا تھا۔خلیفہ ہارون الرشیدکے علاج کے لئے ہندوستان سے مشہور ہندی طبیب منکہ کو بغداد مدعو کیا گیا جو خلیفہ کی شفا کا ذریعہ بنا۔خلیفہ ہارون کی علم دوستی اور سخاوت کے چرچے سن کر ہندی ویدوں کی ایک بڑی جماعت بغداد میں جمع ہوگئی۔بیت الحکمت میںجو وید مامور کئے گئے تھے وہ سنسکرت اور عربی دونوں زبانوں میں ماہر تھے۔ منکہ الہندی نے آیور وید کی مشہور کتاب چرک سنہتا کا فارسی میں اور سشرت سنہتا کاعربی میں ترجمہ کیا۔ اس طرح عربوں نے ہندی طب سے بھرپور استفادہ کیا، یہی وجہ ہے کہ رازی، ابن بیطار، ربن طبری، نوح القمری جیسے عظیم اطباء کی کتب میں ہندی طب کے حوالے کثرت سے نظر آتے ہیں۔ علم الادویہ میںتو اس کا خاص اثر دکھتا ہے۔ اطریفل، سام پٹ، گجر پٹ جیسی اصطلاحات ہندی طب ہی سے ماخوذ ہیں۔اور یہ اخذ و استفادہ کا سلسلہ دونوں طرف سے جاری رہا، بہت سی یونانی دوائیںآیورویدمیںبھی شامل کی گئیں۔ یونانی طب جامع کمالات کا مجموعہ ہندی اطباء کے ربط میں آنے سے پہلے ہی تھا، ہاں اتنا ہے کہ آیوروید کے اضافہ سے اس میں چار چاند لگ گئے۔
اس کے بعد سمرقند، اصفہان اور دمشق میں نئے علمی ادارے ابھرے اور پروان چڑھنے لگے ۔ ان علمی درسگاہوں میں دور دور کے طلبا طب کی تعلیم حاصل کر نے کے لئے آنے لگے ۔ آغاز میں درسی کتب بالکلیہ وہی کتابیں تھیں جو یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ اس طرح طب اپنے مشرقی خطوط پر دوبارہ بقراطی بن گئی جس کی بنیاد تجربات اور منطق پر رکھی گئی تھی۔ ان مسلم اطباء نے یونانی شہ پاروں کو خرد برد و ضیاع سے بچا لیا ورنہ مغرب تک یہ علوم ہرگز نہ پہونچ پاتے اور دنیا ایک بہت بڑے علمی ذخیروں سے محروم ہو جاتی ۔
اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کی بدولت عربی علم و حکمت کے علم بردار نہایت آب وتاب کے ساتھ اسپین پہونچے جہاں تیزی کے ساتھ نئے مدارس تشکیل پانے لگے بالخصوص قرطبہ میں بہت جلد ایک ایسا عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا جس میں تقریباً ۳ لاکھ کتابیں تھیں ۔ اسی طرح سسلی ، طلاطلہ میں بھی علمی ادارے قائم ہوئے ۔ اس عہد میں طب نے اپنے تمام شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کرلی اور عرب علماء فن قدیم طبی خزائن کے دیانت دار اور محافظ بن گئے ، عربوں نے ایسے نمایاں اور قابل یادگار نقوش و اثرات چھوڑے جو انہیں ممتاز حیثیت سے اب تک باقی رکھے ہوئے ہے، عربوں نے یونانی طب کی حفاظت بھی کی اور اس میں گراںقدر اضافے بھی کئے ۔ طب کا انتساب ان قوموں کی طرف کیا جن سے انہوں نے حاصل کیا، یہ ان کے ایمانداری و دیانت کی اعلیٰ مثال ہے جس کے معترف مغربی اقوام بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آ ج بھی یہ طب، طب یونانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس ایک صدی میں اتنا علمی ذخیرہ وجود میں آیا جو کئی صدیوں پر بھاری ہے ۔ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک پوری دنیا میں عربوں کا علمی دبدبہ قائم رہا ۔ عمل جراحی، فصد، حجامت، تعلیق، عمل کئی وغیرہ کو انھوں نے نہ صرف استعمال کیا بلکہ جدید اضافے بھی کئے ۔ دوران خون کی دریافت کا سہرا ایک عرب طبیب ابن نفیس کے سر ہے جس کے چھ سو سال بعد ولیم ہاروے نے اسے پیش کیا ۔ چیچک کا ٹیکہ اور امراض میں تعفن کا تصور رازی نے دیا۔مشہور واقعہ ہے کہ شفا خانہ کی تعمیر کے لئے صحتمند جگہ کا انتخاب کرنا ہوا تو رازی نے ایک ہی جانور کے گوشت کے ٹکڑے لے کر شہر کے مختلف مقامات پر لٹکوادیئے پھر جس مقام کاٹکڑا سب سے بعد میں متعفن ہوا اسی مقام کی آب وہوا کو شفا خانہ کی تعمیر کے لئے بہترین قرار دیا۔رازی کی یہ حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ماحول میں جراثیم کی موجودگی کے فلسفہ سے واقف تھا۔
امراض چشم پر خصوصی توجہ دی گئی مختلف طبی موضوعات پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں ۔ اس وقت یورپ تاریک دور سے گذرہا تھا جب کہ اسلامی دنیا میں علم دین کی شمعیں روشن ہو رہی تھیں اس عہد کی تصنیفات سے بعد میں یورپ نے فائدہ اٹھایا اور کثرت سے عربی تصانیف کے لا طینی اور دیگر زبانوں میں ترجمے کئے گئے ۔ ابن سینا کی القانون، رازی کی الحاوی، مجوسی کی کامل الصناعۃ، زھراوی کی التصریف جیسی بہت سی تصنیفات کا مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور سترھویں صدی عیسوی تک یورپ میں داخل نصاب رہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ آیوروید سے اہل یوروپ نے تراجم کئے تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
پدم شری حکیم سید ظل الرحمن نے حیدرآباد میںایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ” طب یونانی کی ایک مسلمہ تاریخ ہے اور یہ سب سے قدیم طب ہے جس کا سلسلہ بابلی تہذیب سے شروع ہوتا ہے اور زندہ شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یہ بات طلبہ و ا ساتذہ کو اپنے ذہن میں ہمیشہ رکھنا چاہیے۔اور یہ طب مسلمانوں کے تہذیب و ثقافت کی نمائندگی بھی کرتا ہے اس لئے ہمیں یونانی طب سے خاص لگائو اور محبت ہے۔ طب یونانی کے بنیادی نظریات اتنے سائنٹفک ،اتنے جان داراور اتنے شاندار ہیں کہ اسے اپنے ڈانڈے کسی دوسرے طب سے ملانے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کی کچھ سادہ لوح طبیبوں نے ماضی میںکیا تھا۔طب یونانی کا عالمی طب پر بڑا احسان ہے کہ اس کی دوائیں دوسرے نظامہائے طب میں بھی استعمال کی جارہی ہیں۔،،
طب یونانی ہندمیں: عرب و ایران کے بعد طب یونانی ہندوستان پہونچ چکی تھی ۔ لیکن بارہویں صدی عیسوی میں جب باقاعدہ مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں تو طب یونانی کو استحکام ملا جس میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی وافر تعاون رہا ۔ رفتہ رفتہ یونان، عرب اور عجم کے بعدہندوستان طب یونانی کا نہ صرف وارث بلکہ مرکز بن گیا ۔ اس کا تسلسل عہد غزنی سے شروع ہو کر عہد غوری ، عہد غلامان،خلجی، لودھی ، تغلق اور عہد مغلیہ تک جاری رہا ۔ جنوبی ہندو دکن میں بہمنی سلطنت ، قطب شاہی ، عاد ل شاہی ، نظام شاہی اور آصف جاہی سلطنتوں نے بھی طب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ بر طانوی عہد میں طب یونانی کی ترقی متاثر ہوئی لیکن چونکہ عوام کے دلوں میں طب یونانی گھر کر چکی تھی اس لئے بہت سے طبی خانوادوں نے اسے فعال و متحرک بنائے رکھا اور اس طب کو زوال سے بچالیا ۔
برطانوی عہد کے غروب کے ایام میں مشہورمجاہد آزادی و مسیحائے قوم، حکیم اجمل خان کے مجاہدانہ کارناموں نے طب یونانی کی حفاظت میں اہم رول ادا کیا آپ نے طب یونانی میںریسرچ اور تحقیق کا آغاز کر کے عصری علوم سے دیسی طبوں کو ہم آہنگ کیا ۔ آزاد ہندوستان میں دیگرہند ی طبوں کے ساتھ طب یونانی کے بقا و فروغ کے لئے بھی مناسب قدم اٹھائے گئے ۔ جس کی وجہ سے طب یونانی کو اپنا جائز مقام حاصل ہوا اور آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں پر طب یونانی کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے ۔ طب جدید کی طرح طب یونانی سے وابستہ افراد تمام سہولیات حکومت سے حاصل کر رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری مراعات حاصل کرنے والے اطباء خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لئے جہد مسلسل، جانفشانی، عمل پیہم اور جدید تحقیق سے ہم آہنگ کرتے رہیں تا کہ طب یونانی زیادہ سے زیادہ ترقی کرتا چلا جائے۔