طالبان کا پولیس کیڈٹس کے قافلے پر ہلاکت خیز حملہ، 37 ہلاک

کئی افراد کے زخمی ہونے کا اندیشہ ‘ امن مذاکرات ایک بار پھر لیت و لعل کا شکار، داعش جنگجوؤں سے طالبان بھی پریشان

کابل ۔ 30 جون (سیاست ڈاٹ کام) پولیس اہلکاروں کو لے جانے والی دو بسوں کو آج خودکش بم حملہ آوروں نے نشانہ بنایا جس میں 37 فوجیوں کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ سرکاری اور طالبان ذرائع نے یہ بات بتائی۔ دریں اثناء وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے قافلے کو نشانہ بناتے ہوئے دو دھماکے کئے گئے۔ حملہ کی فوری طور پر طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے توثیق کردی اور کہا کہ حملہ میں بیشتر اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ طالبان کو 2001ء میں امریکی قیادت والی اتحادی فوج نے افغانستان میں اقتدار سے بیدخل کردیا تھا جس کے بعد طالبان نے حکومت کے خلاف شورش شروع کردی۔ دوسری طرف 2014ء میں بیرونی فوجی دستوں کی افغانستان سے تخلیہ کے بعد طالبان نے حکومت کے خلاف اپنی شورش شروع کر رکھی ہے۔ یاد رہیکہ یہ دھماکے ایک ایسے وقت کئے گئے ہیں جب صرف ایک ہفتہ قبل ایک دیگر حملہ میں 14 نیپالی سیکوریٹی گارڈس کو اس وقت ہلاک کردیا گیا تھا

جب وہ کینیڈین سفارتخانہ میں اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی انجام دینے جارہے تھے۔ حملہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ نیپالی سیکوریٹی گارڈس کی گلابی رنگ کی منی ویان خون کے رنگ سے سرخ ہوگئی تھی۔ اسی دوران وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ آج ہوئے دھماکوں کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ اب تک یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا وہ کار بم تھا یا خودکش حملہ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے یہ دھماکہ ہوا اور اس بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں پولیس کے کیڈٹس سوار تھے جو انہیں لیکر شہر کے نواحی علاقہ کی جانب جاری تھی۔ اسی دوران وہاں موجود ایک اخباری رپورٹر نے بتایا کہ دھماکہ کے مقام کی مکمل طور پر ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ پولیس کی پانچ گرین ویانس کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ طالبان کو جب سے 2001ء سے اقتدار کھونا پڑا ہے اس وقت سے وہ خصوصی طور پر پولیس کے دشمن ہوگئے ہیں۔ طالبان نے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے افغانستان کے کئی علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا لیکن دوسری طرف دولت اسلامیہ گروپ نے بھی افغانستان میں دراندازی کردی ہے خصوصی طور پر مشرقی علاقوں میں اور اس طرح اب طالبان کو خود ان کے علاقوں میں گھس کر دولت اسلامیہ کے جنگجو چلینج دے رہے ہیں کہ آؤ اگر دم ہے تو ہم سے لڑو۔
نیپالی سیکوریٹی گارڈس کی ہلاکت کے بعد نیپال نے بطور احتجاج اپنے تمام شہریوں پر افغانستان میں کام کرنے پر امتناع عائد کردیا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ افغانستان میں یو ایس اور ناٹو کی جنگجو افواج کا مشن ڈسمبر 2014ء میں ختم ہوگیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک امریکی افواج محض ایک مشیر کا کام کررہی ہیں جو وقتاً فوقتاً افغان فوجیوں کو جنگ کے نئے نئے حربے سکھاتی ہیں تاکہ شخصی طور پر کسی بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیتی۔ یہاں تک القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کا معاملہ ہے تو وہاں امریکی افواج خاموش تماشائی نہیں بنتی بلکہ دانت کھٹے کردینے والی کارروائی انجام دیتی ہے البتہ امریکی فوجیوں کو یہ ہدایت کی گئی ہیکہ وہ صرف اپنے دفاع کیلئے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے تازہ ترین حملوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ طالبان کے ساتھ جنگ بندی کے لئے مذاکرات پر امریکہ نے ہمیشہ زور دیا ہے لیکن اب یہ بات بھی ممکن نظر نہیں آتی کیونکہ امریکہ کے ڈرون حملے میں طالبان سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت نے طالبان کو ایک بار پھر بدظن کردیا ہے۔ اب تک اس بات کی توثیق نہیں ہوسکی ہے کہ طالبان کے موجودہ سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ حکومت افغانستان سے امن مذاکرات کرتے ہیں یا نہیں۔

کابل حملہ بے معنی تشدد وزیر اعظم مودی کی مذمت
نئی دہلی 30 جون ( سیاست ڈاٹ کام ) وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کابل میں ہوئے بم حملہ کی شدید مذمت کی ہے اور اس حملہ کو بے معنی تشدد قرار دیا ہے ۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر پر کہا کہ کابل کے قریب حملہ سے انہیں حیرت ہوئی ہے ۔ وہ اس بے معنی تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ مہلوکین کے افراد خاندان اور زخمیوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ کابل میںپولیس کیڈٹس کو منتقل کرنے والی بسو ںکو نشانہ بناتے ہوئے طالبان نے ایک دھماکہ کیا تھا جس میں اب تک 35 سے زیادہ ہلاکتوں کی اطلاع ہے ۔