صرف مسلم قیدی ہی جیل توڑتے ہیں ، ہندو قیدی کیوں نہیں ؟

کانگریس لیڈر ڈگ وجئے سنگھ کا استفسار، عدالت کی زیرنگرانی این آئی اے تحقیقات کرانے اپوزیشن کا مطالبہ ، پولیس اپنے موقف پر قائم
بھوپال ؍ نئی دہلی ۔ یکم ؍ نومبر (سیاست ڈاٹ کام) بھوپال میں سیمی کے 8 کارکنوں کی ہلاکت کے تعلق سے آج مزید کئی سوالات ابھرے ہیں لیکن پولیس کا یہ دعویٰ ہیکہ انکاؤنٹر حقیقی تھا۔ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان اور دیگر بی جے پی قائدین نے اس واقعہ کو سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں کی مذمت کی۔ کانگریس لیڈر ڈگ وجئے سنگھ کی زیرقیادت اپوزیشن نے یہ کہا کہ عدالت کی زیرنگرانی این آئی اے تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ عدالتی تحقیقات کے ذریعہ یہ بھی معلوم کیا جانا چاہئے کہ مدھیہ پردیش میں صرف سیمی کے زیردریافت قیدی اور مسلمان ہی جیل توڑنے کے واقعات میں کیوں ملوث ہوتے ہیں۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی، سی پی آئی ایم اور آر جے ڈی نے بھی انکاؤنٹر کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور منظرعام پر آنے والے مختلف ثبوت بشمول ویڈیو کلپس کے تناظر میں سرکاری بیان پر شبہات ظاہر کئے۔ ڈگ وجئے سنگھ نے کہا کہ آخر کیا وجہ ہیکہ سیمی کارکن ہی جو مسلمان ہوتے ہیں، جیل توڑنے کے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں جبکہ ہندو قیدی اس میں ملوث نہیں پائے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ آخر مسلمان ہی جیل کیوں توڑتے ہیں اور ہندو ایسے واقعات میں کیوں ملوث نہیں ہوتے۔ سیمی کارکنوں کے وکیل پرویز عالم نے کہا کہ یہ ایک سفاکانہ قتل ہے اور ان کے ارکان خاندان نے سی بی آئی تحقیقات کی درخواست کرتے ہوئے مدھیہ پردیش ہائیکورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

انسپکٹر جنرل یوگیش چودھری پولیس کے اس موقف پر بدستور قائم ہیں کہ یہ ایک حقیقی انکاونٹر تھا۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیوز اور دیگر شواہد کے حقیقی ہونے کی تحقیقات کی جائے گی۔ یوگیش چودھری نے بتایا کہ انہوں نے ویڈیوز نہیں دیکھی۔ اگر ایسی کوئی ویڈیو یا دیگر شواہد ہوں تو ان کے حقیقی ہونے کا پتہ چلایا جائے گا۔ انہوں نے آج پھر ایک بار اپنی بات کو دہرایا کہ مہلوکین کے پاس سے چار آتشی اسلحہ اور تین تیز دھاری ہتھیار برآمد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دو 315 بور دیسی ساختہ پستول اور دو 12 بور ’’کتہ‘‘ برآمد کئے جس سے 6 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس یہ بھی تحقیقات کررہی ہیکہ کیا سیمی کو کوئی بیرونی مدد حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ 2 اور 3 بجے شب پھر 10:30 اور 11:30 بجے دن جبکہ حقیقی محاذ آرائی ہوئی، ان تمام میں قابل غور پہلو یہ ہیکہ دہشت گردوں کو کہاں سے مدد ملی۔ کیا انہیں کوئی بیرونی مدد حاصل ہوئی یا پھر انہوں نے خود ایسا کیا تھا۔ اس معاملہ کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کہا کہ ایسے مسئلہ کو جو قومی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے فرقہ وارانہ شکل دی جارہی ہے۔