صرف قمری کیلنڈر ہی کیوں؟

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

اسلام مذہبی معاملات کے لئے صرف قمری کیلنڈر کو ترجیح دیتا ہے، جس میں رمضان المبارک اور ذی الحجہ کے مہینے قابل ذکر ہے کہ قمری کیلنڈر کے باعث روزے اور حج کے ایام جو اسلام کے اہم ارکان ہیں مختلف موسموں میں گردش کرتے ہیں، یعنی کبھی سردی اور کبھی گرمی میں آتے ہیں۔ قبل از اسلام عرب میں ان ایام (حرمت والے مہینوں) کو آگے پیچھے کرنے کا رواج موجود تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل اور گہری سوچ بچار کے بعد اور پھر بالآخر جب قرآن مجید نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی ممانعت کردی تو آپﷺ نے اس کو ختم کردیا۔ قمری مہینوں کے استعمال سے ان افراد کو ضرور صدمہ پہنچتا ہے، جو بلا سوچے سمجھے دوسروں کی نقالی کو جزو ایمان بنائے ہوئے ہوں اور اس حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہوں۔ قمری کیلنڈر کے کچھ فوائد کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے:

(الف): قمری کیلنڈر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ چوں کہ رمضان المبارک کے روزے ہر سال مختلف ایام میں آتے ہیں، اس طرح ہم ہر موسم میں کھانے اور پینے کی احتیاج میں کمی کے عادی ہو جاتے ہیں کہ نہ تو ہر وقت مشکل صورت حال کا ہی سامنا ہے اور نہ ہی ہر وقت عیش اور فراوانی کی صورت حال۔

(ب): اسلام چوں کہ دنیا کے لئے آیا ہے، اس لئے مختلف علاقوں کی آب و ہوا میں جو فرق ہے، اس کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا تھا۔ اگر روزے شمسی کیلنڈر کے مطابق کسی ایک مقررہ مہینہ میں فرض کئے جاتے یعنی ایک مخصوص موسم میں تو یہ بات فطرت سے متصادم ہوتی اور عملی طورپر ممکن نہ ہوتا۔ مثلاً شمالی نصف کرہ یعنی خط استواء کے شمال میں واقع ممالک میں موسم گرما، جب کہ جنوبی نصف کرفہ یعنی خط استواء کے جنوب میں واقع ممالک میں موسم سرما ہوتا ہے اوریہ بات بھی ہے کہ استوائی ممالک میں موسم سرما کو اچھا اور خوشگوار موسم تصور کیا جاتا ہے، جب کہ قطبین کے قریب واقع خطوں میں یہ بہت بڑی زحمت کا دورانیہ ہے۔ اس طرح شمسی کیلنڈر میں مختلف ممالک کے مسلمانوں کو جس ’’ناانصافی‘‘ اور امتیاز کا سامنا ہوتا ہے، اس کا تدارک قمری کیلنڈر سے ہی ممکن تھا۔ یعنی ہر خطے کے مسلمانوں کو موسم کی سختیوں اور رحمتوں سے برابر کا حصہ دینے کے لئے قمری کیلنڈر کو بنیاد بنایا گیا۔

(ج): سالانہ بچتوں، مال تجارت اور زرعی پیداوار پر عائد زکوۃ اور عشر سے حاصل ہونے والی رقوم میں غیر محسوس طورپر اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ۳۳شمسی سال ۳۴قمری سال کے برابر ہوتے ہیں، گویا ۳۳ برس میں قمری کیلنڈر کے مطابق ۳۴سال کے محاصل جمع ہو جاتے ہیں اور تنخواہوں وغیرہ کی ادائیگی کے بعد بھی حکومت کے پاس دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے وافر وسائل محفوظ ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ خدائے بزرگ و برتر کے حضور یہ التجا ہے کہ وہ ہماری حقیر سی کاوش کو قبول فرمائے اور یہ چند گزارشات ان لوگوں کے قلب منور کرنے کا ذریعہ بن جائیں، جو اسلام کی مبادیات کو سمجھنے کے خواہاں ہیں۔ جن لوگوں کو تفصیلات کی ضرورت ہے، ان کے لئے علماء و فقہاء کی برسوں کی عرق ریزی کا حاصل وہ ضخیم کتابیں ہیں اور مصر کی الازہر، تیونس کی زیتونہ اور فیض (مراکش) کی قیروان جیسی جامعات ہیں، جب کہ پاکستان، ہندوستان، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک میں قائم ان گنت ادارے ہیں، جو تعلیم و تدریس اور تحقیق کے میدانوں میں علم و فضل کے سرچشموں سے طالبان علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔

نمازوں کا نظام الاوقات قطبی خطوں میں
جیسا کہ ’’مسلمان کی روز مرہ کی زندگی‘‘ کے عنوان کے بتایا گیا ہے کہ ہر مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی فرض ہے: (۱) نماز فجر: صبح صادق یعنی سورج نکلنے سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سے لے کر طلوع آفتاب تک کسی بھی وقت ادا کی جاسکتی ہے (۲) نماز ظہر: سورج جب (عرض بلد کے مطابق) ہمارے اوپر یا سامنے سے نصف النہار کا سفر طے کرلیتا ہے تو ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد تین گھنٹے تک نماز ظہر ادا کی جاسکتی ہے (۳) نماز عصر: نماز عصر کا وقت ظہر کے اختتام سے لے کر غروب آفتاب تک رہتا ہے (۴) مغرب: غروب آفتاب سے لے کر جھٹ پٹے کا وقت ختم ہونے تک یعنی غروب آفتاب سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد تک مغرب کی نماز ادا کی جاسکتی ہے (۵) عشاء: یہ نماز جھٹ پٹے کا وقت ختم ہونے سے لے کر صبح تک یعنی فجر کی نماز کا وقت شروع ہونے سے قبل تک ادا کی جاسکتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ خط استواء سے کافی دور واقع ممالک میں اس نظام الاوقات کے مطابق نمازوں کی ادائیگی عملاً بہت مشکل ہے، اس لئے ان ممالک میں سورج کی گردش کی گجائے گھڑی کی سوئیوں کی گردش کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
ہر شہر کے معیاری اور مقامی وقت میں فرق ہوتا ہے۔ درحقیقت خط استواء پر ہر پندرہ میل کے فاصلہ کے بعد ایک منٹ کا فرق پڑ جاتا ہے۔ جوں جوں ہم قطبین کے قریب ہوتے جاتے ہیں تو فاصلے کے حساب سے اوقات میں فرق کم ہوتا جاتا ہے اور امریکہ، کناڈا اور روس جیسے ممالک میں ان کی مشرقی سرحد پر طلوع آفتاب ان کی مغربی سرحد سے آٹھ سے دس گھنٹے قبل ہوتا ہے۔ صاحب فہم کے لئے اس مقام کا ’’مقامی‘‘ وقت متعین کرنا مشکل نہیں، مثلاً فرانس میں گھڑیاں وہاں کے حقیقی معیاری وقت سے ایک گھنٹہ ایڈوانس رکھی جاتی ہیں، یعنی اگر گھڑی بارہ بجا رہی ہے تو دراصل وہاں گیارہ بجے ہوں گے۔ ان پیمانوں کو نہ صرف روزانہ نمازوں بلکہ رمضان میں سحر و افطار کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
زمین کے بیضوی ہونے کے سبب ایک فرضی لائن کھینچنے کی ضرورت تھی، تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ دن کہاں سے شروع ہوگا۔ زیر استعمال ڈیٹ لائن ایشیا اور امریکہ کے درمیان سے گزرتی ہے، تاہم سیاسی مفادات کے تحت بعض مقامات پر اس اصول سے انحراف بھی کیا گیا ہے۔ اس بات کی ان مسلمان مسافروں کے لئے اہمیت ہے، جو ذریعہ سفر چاہے بحری ہو یا ہوائی، جاپان سے آسٹریلیا، انڈونیشیا اور امریکہ تک اور اسی روٹ پر واپسی کا سفر کرتے ہیں۔ امریکہ کی طرف جاتے ہوئے جونہی وہ فرضی لائن عبور کتے ہیں تو قت میں ۲۴ گھنٹے کا فرض پڑ جاتا ہے۔ ہفتہ، جمعہ بن جاتا ہے اور گویا اسے ’’ہفتہ‘‘ کے دو دن گزارنا پڑتے ہیں اور اس کے بالکل برعکس صورت حال واپسی کے سفر میں پیش آتی ہے کہ امریکہ سے ایشیا آتے ہوئے جونہی وہ مقام آتا ہے تو ایک دن کا اضافہ کردیا جاتا ہے اور جمعہ ایک لمحہ میں ہفتہ کے دن میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اگر سفر کا اختتام دوپہر سے پہلے ہو جائے تو نماز جمعہ کی ادائیگی منزل مقصود کے اوقات (دن) کے مطابق ہوگی نہ کہ اس کے مطابق جس روز سفر کا آغاز کیا تھا۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)